
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3557
تاریخ اجراء: 09شعبان المعظم 1446ھ/08فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر سکول کا وقت 10 سے 5 کا ہو تو کیا ظہر کی نماز پہلے پڑھ سکتے ہیں یا قضا پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہر نماز کا ایک خاص وقت ہےکہ جب تک اس کاوقت شروع نہ ہواس وقت تک وہ نمازپڑھی ہی نہیں جاسکتی، اگرکسی نے وقت شروع ہونے سے پہلےہی نمازپڑھ لی تونمازہوگی ہی نہیں ،یہاں تک کہ وقت شروع ہونے پراسے دوبارہ پڑھنافرض ولازم ہوگا۔اوراگر اس کاوقت گزارکرپڑھی یعنی قضاکی تونمازتوہوجائے گی لیکن بلاوجہ شرعی ایساکرناسخت گناہ کاکام ہے ۔
یونہی جماعت کی شرائط پائے جانے کی صورت میں مردوں پر مسجد کی جماعت اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے،بلاوجہ شرعی جماعت چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ لہذالازم ہے کہ سکول کی مصروفیت ہو یا کوئی اور،اسے اس انداز سے مینج کریں کہ اس کی وجہ سے نہ نماز قضا ہو اور نہ ہی جماعت واجب ہونے کی صورت میں مسجد کی جماعت اولی چھوٹے، یہاں تک کہ اگراس کے لیے سکول چینج کرناپڑے تواسے چینج کیاجائے۔
اللہ تعالیٰ نماز کے متعلق ارشادفرماتا ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتٰبًا مَّوْقُوتًا﴾ ترجمہ کنز الایمان : بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔(سورۃ النساء،پارہ 05،آیت: 103)
(كِتٰبًا مَّوْقُوتًا﴾ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے :" نماز کے اوقات مقرر ہیں لہٰذا لازم ہے کہ ان اوقات کی رعایت کی جائے۔ (تفسیر صراط الجنان ، جلد 2 ، ص 328 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:"أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا."ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔" (صحیح البخاری ،جلد1،صفحہ112،حدیث 527،دار طوق النجاۃ)
فقہ حنفی کے مشہور فقیہ امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:"الصَّلَاةُ فِي غَيْرِ وَقْتِهَا لَا تَصِحُّ، لِأَنَّهَا مَوْقُوتَةٌ بِالشَّرِيعَةِ." یعنی : نماز اگر اس کے مقررہ وقت کے علاوہ ادا کی جائے تو وہ درست نہیں ہوگی، کیونکہ شریعت میں اس کے اوقات مقرر ہیں۔ (المبسوط للسرخسي، ج 1، ص115 ، مطبوعہ بیروت )
در ِمختار میں ہے کہ :"لَا تُجْزِئُ الصَّلَاةُ قَبْلَ وَقْتِهَا، وَإِنْ صَلَّى فَلَا تُجْزِئُهُ وَيَلْزَمُهُ إِعَادَتُهَا." یعنی نماز وقت سے پہلے ادا کرنا جائز نہیں، اور اگر کسی نے پڑھ لی تو کافی نہیں اور اسے دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ (الدر المختار، ج 1، ص218 ، مطبوعہ بیروت )
علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:"مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ عَمْدًا فَإِنَّهُ يَأْثَمُ وَيَلْزَمُهُ الْقَضَاءُ وَالتَّوْبَةُ." ترجمہ: جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دیتا ہے، وہ گناہگار ہوگا اور اس پر لازم ہے کہ وہ قضا کرے اور توبہ کرے۔ (رد المحتار، ج 2، ص62 ، مطبوعہ بیروت )
غنیۃ المستملی میں ہے :”قال محمد فی الاصل اعلم ان الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ لا یرخص الترک فیھا الا بعذر مرض او غیرہ واول ھذا الکلام یفید السنیۃ وآخرہ یفید الوجوب وھو الظاھر ففی الغایۃ قال عامۃ مشائخنا انھا واجبۃ وفی المفید انھا واجبۃ وتسمیتھا سنۃ لوجوبھا بالسنۃ وفی البدائع تجب علی العقلاء البالغین الاحرار القادرین علی الجماعۃ من غیر حرج انتھی‘‘ترجمہ:امام محمد نے اصل میں فرمایا :جان لو کہ جماعت سنت مؤکدہ ہے ،اس کو چھوڑنے کی رخصت نہیں ہے مگر مرض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ۔اس کلام کا پہلا حصہ جماعت کے سنت ہونے کا فائدہ دیتا ہے اور آخری حصہ جماعت کے واجب ہونے کا فائدہ دیتا ہے اوریہی ظاہر ہے ، لہٰذا غایہ میں ہے کہ عامہ مشائخ نے فرمایا کہ جماعت واجب ہے اور مفید میں ہےکہ جماعت واجب ہے اور اس کو سنت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے اور بدائع میں ہے کہ جماعت ایسے عاقل ،بالغ اورآزاد لوگوں پر واجب ہے ، جو بغیر مشقت جماعت پر قادر ہوں ۔ (غنیۃ المستملی ،فصل فی الامامۃ ،صفحہ 438،مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :’’اقول لسنانبیح تعمد ترک الجماعۃ الأولی اتکالا علی الاخری فمن سمع منادی ﷲ ینادی ولم یجب بلاعذر اثم وعزر“یعنی میں کہتاہوں : ہم جماعت اولیٰ کے عمداً ترک کو دوسری جماعت پربھروسا کی بناء پر مباح قرار نہیں دیتے اور جس شخص نے بھی اﷲتعالیٰ کی طرف سے بلاواسُنااور اس نے اسے قبول نہ کیا وہ گنہگار ہوگا اور وہ قابل تعزیر ہے۔ (فتاوی رضویہ،جلد7، صفحہ162، رضافاؤنڈیشن،لاهور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم