Juma Ya Kisi Namaz Ki Sunnat Qabliyah o Farzon Ke Mabain Nafil Namaz Ada Karna Kaisa ?

 

جمعہ یا کسی نماز کی سنتِ قبلیہ و فرضوں کے مابین نفل نماز ادا کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1932

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1446ھ/02اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جمعہ یا کسی بھی نماز میں پہلی سنتوں اور فرضوں کے درمیان اضافی نوافل ادا کئے جا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فجر کی جماعت سے پہلے نوافل پڑھنا تو جائز نہیں کیونکہ فجر کے مکمل وقت میں فجر کی سنتوں کے علاوہ کسی قسم کے نفل پڑھنا جائز نہیں البتہ ظہر، عصراور عشاء  کی سنتِ قبلیہ کے بعد جماعت  سے پہلے نوافل وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ مکروہ وقت نہیں ، لیکن یہ ضرور یاد رہے کہ ان نوافل  میں مشغولیت جماعت میں کوتاہی  کا سبب نہ بنے۔

   نماز جمعہ کے لیے آئیں اور امام خطبے کے لیے منبر پر آ چکا ہے تو اب بھی کسی قسم کے نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں حتٰی  کہ جمعہ کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں تو وہ بھی نہیں پڑھ سکتے ۔ اب فرض کے بعد والی سنتیں پڑھ کر یہ سنتیں ادا کی جائیں گی۔ جب امام اردو وغیرہ کسی زبان میں بیان یا خطاب کر رہے ہوں ، دوسری اذان نہ ہوئی ہو تو مسجد میں نفل پڑھنا اگرچہ جائز ہے مگر عموماً  اس طرح دورانِ خطاب نفل پڑھنے سے خشوع و خضوع متاثر ہوتا ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس موقع پر امام صاحب کا بیان سنا جائے جبکہ وہ شرعی احکام کے مطابق ہو ۔

   طلوعِ فجر کے بعد فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی نفل نماز جائز نہیں۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” لا صلاۃ بعد الفجر الا سجدتین۔۔۔وھو ما اجمع علیہ اھل العلم کرھوا ان یصلی الرجل بعد طلوع الفجر الا رکعتی الفجر“یعنی طلوعِ فجر کے بعد سوائے دو کعتوں کے کوئی نفل نماز جائز نہیں۔۔۔اور اس پر اہلِ علم کا اجماع ہے کہ وہ اس بات کو مکروہ جانتے ہیں کہ کوئی شخص طلوعِ فجر کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ نفل نماز پڑھے۔ (جامع ترمذی، جلد 01،صفحہ  96،مطبوعہ کراچی)

   مراقی الفلاح میں ہے:”(ويكره التنفل بعد طلوع الفجر بأكثر من سنته)قبل أداء الفرض لقوله صلى الله عليه وسلم: "ليبلغ شاهدكم غائبكم ألا لا صلاة بعد الصبح إلا ركعتين"، وليكون جميع الوقت مشغولا بالفرض حكما ولذا تخفف قراءة سنة الفجر“یعنی طلوعِ فجر کے بعد فرض پڑھنے سے  پہلے سنتِ فجر کے علاوہ کوئی اور نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، سرکار صلى الله علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے "جو تم میں موجود ہے وہ غائب تک  یہ بات پہنچادے کہ طلوعِ فجر کے بعد دو رکعتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نماز جائز نہیں"، مزید یہ کہ یہ تمام وقت حکماً فرض کے ساتھ مشغول رہے  یہی وجہ ہے کہ فجر کی سنتوں میں قراء ت میں کی تخفیف دی گئی ہے۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح ، جلد 01، صفحہ  264-263، مکتبہ غوثیہ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہے:”طلوع فجر سے طلوع آفتا ب تک کہ اس درمیان میں سوا دو رکعت سنت فجر کے کوئی نفل نماز جائز نہیں۔(بہار شریعت  ، جلد 1، صفحہ 455، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مکروہ وقت نہ ہو تو نوافل پڑھنا جائز ہے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:”اگر وقت میں گنجائش ہو اور اس وقت نوافل مکروہ نہ ہوں تو جتنے نوافل چاہے پڑھے اور اگر نماز فرض یا جماعت جاتی رہے گی تو نوافل میں مشغول ہونا ،ناجائز ہے۔“(بہار شریعت  ، جلد 1، صفحہ665، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم