
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک شخص نے کھڑی ٹرین میں ظہر کی فرض نماز شروع کی اور ٹرین چل پڑی، تو فرض باقی نہ رہے۔ کیا اب فوراً سلام پھیر کر نماز توڑ دے یا ویسے ہی ٹوٹ گئی یا نفل کے طور پر مکمل کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ٹرین ہلتے ہی یہ نماز فرضوں سے نفل میں تبدیل ہو جائے گی، لہذا بطورِ نفل دو یا چار رکعت کی صورت میں بغیر سجدہِ سہو اُس نماز کو مکمل کر لیا جائے، البتہ یاد رہے کہ اِس نماز کو بطورِ نفل مکمل کرنا مستحب ہے، لازم نہیں، لہذا نماز مکمل کیے بغیر سلام پھیرنے کی اجازت ہے، البتہ جب ٹرین ٹھہرے گی تو فرض نئے سرے سے ادا کرنا ضروری ہوں گے۔
مسئلہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ تحریمہ حقیقتِ نماز کی اصل و بنیاد ہے اور فرض و نفل ہونا نماز کا وصف ہے۔ یعنی تکبیرِ تحریمہ "اللہ اکبر" کہہ کر نماز میں داخل ہونا، یہ نماز کی ”بنیاد“ ہے کہ جب انسان تکبیر تحریمہ کہتا ہے، تو وہ شرعی نماز کو شروع کر نے والا قرار پاتا ہے پھر یہ بات کہ یہ نماز ”فرض“ ہے، ”سنت“ ہے یا ”نفل“ ہے، یہ نماز کے اوصاف ہے اور شیخین امامین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْهما کا نقطہ ِنظر یہ ہے کہ ”اصل“ اور ”وصف“ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
تفصیل یوں سمجھیں کہ جب ایک شخص نے فرض کی نیت سے تکبیرِ تحریمہ کہی، تو اس نے تکبیرِ تحریمہ کے ذریعے نماز کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی اُس نماز کو وصفِ فرضیت سے متصف کر دیا۔ اب اگر دورانِ نماز کوئی عارِض لاحق ہوا کہ جو وصفِ فرضیت کے منافی ہے، لیکن نفل نماز کے منافی نہیں، یعنی اُس کے ہوتے ہوئے فرض ادا نہیں ہوتا، البتہ نفل ادا ہو جاتے ہیں، تو شیخین کے نزدیک وصفِ فرضیت ختم ہو جائے گا، البتہ ”تحریمہ“ باقی رہے گی، وہ باطل نہیں ہو گی، کیونکہ وصفِ فرضیت کے باطل ہونے سے تحریمہ باطل نہیں ہوا کرتی، لہذا جب تحریمہ باقی ہے اور وصفِ فرضیت باطل ہے، تو وہ نماز فرض سے نفل میں تبدیل ہو جائے گی، کیونکہ جو چیز(عدمِ استقرار) فرضوں کے حق میں عارِ ض ہے، وہ یہاں نفل کے باب میں عارض نہیں، لہذا جب فرض نماز کو کھڑی ٹرین میں پڑھنا شروع کیا تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ وہ نماز وصفِ فرضیت سے متصف ہو گئی، لیکن جب ٹرین نے حرکت کی تو ایک ایسا عارِض(عدِم استقرار) پیدا ہوا، جو وصفِ فرضیت کے منافی ہے، لہذا فرض باطل ہو گئے، لیکن یہ عارِض نفل کے حق میں عارِض نہیں ہے، کیونکہ چلتی ٹرین میں نفل نماز درست ہے، لہذا ٹرین ہلتے ہی وصفِ فرضیت باطل ہوا اور تحریمہ باقی رہا اور نماز نفل کی طرف منقلب اور متحول ہو گئی۔ اس کے نظائر ملاحظہ کریں۔
پہلی نظیر: اگر کوئی شخص فرضوں میں قعدہ اخیرہ بھول کر ترک کرکے کھڑا ہو جائے اور پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کر لے، تو یہ پانچویں رکعت کا سجدہ وصفِ فرض کے لیے عارِض و ناقض ہے، لہذا اُس کے فرض باطل ہو جاتے ہیں اور وہ نماز ”نفل“ میں تبدیل ہو جاتی ہے، نیز اُسے حکم ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو مزید ایک رکعت ملا لے، تا کہ چھ نفل ہو جائیں اور یہ وہ نفل ہوں گے کہ جو ”بالقصد“ شروع نہ ہوئے، بلکہ قصد تو فرض کا تھا، مگر غیر قصدی طور پر وہ رکعتیں نفل ہو گئیں اور اس صورت میں فرض نئے سرے سے پڑھنے ہوں گےاور اصح قول کے مطابق اس صورت میں نمازی سجدہ سہو نہیں کرے گا کہ یہاں فرض ہی باطل ہو گئے ہیں، جس کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہوسکتی، لہذا اس کی حاجت بھی نہیں۔ اِس مسئلہ میں اصحابِ متون نے ”بطل فرضہ“ لکھا تو شارحین نے ”فرضہ“ کی شرح ”وصفہ“ سے کی ہے، جو کہ اِسی چیز کا اشارہ اور قرینہ ہے کہ ”بطلانِ فرض“ کا مطلب ”بطلانِ وصفیتِ فرض“ ہے، نہ کہ اصل تحریمہ ہی باطل ہو جاتی ہے، بلکہ تحریمہ باقی رہتی ہے اور وہ نماز نفل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
”اللباب فی شرح الکتاب“ اور ”المختصر للقدوری“ میں ہے:
من سھا عن القعدہ الاخیرۃ فقام الی الخامسۃ و ان قید الخامسۃ بسجدۃ بطل فرضہ، ای وصفہ و تحولت صلاتہ نفلا۔۔۔ و کان نفلاعلیہ ندبا ان یضم الیھا رکعۃ سادسۃ و لو فی العصر، و یضم رابعۃ فی الفجر کیلا یتنفل بالوتر، و لولم یضم لاشیء علیہ، لانہ لم یشرع فیہ قصدا فلا یلزمہ اتمامہ، و لکنہ یندب
ترجمہ:جو شخص آخری قعدہ میں بیٹھنا بھول گیا اور پانچویں(رکعت) کے لیے کھڑا ہو گیا، تو اگر اس نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا، تو اس کے فرض باطل ہو جائیں گے، یعنی اُس نماز کا وصفِ فرضیت ختم ہو جائے گا اور اس کی نماز نفل میں تبدیل ہو جائے گی۔ اب اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کے ساتھ چھٹی رکعت ملا لے، چاہے عصر کی نماز ہی کیوں نہ ہو اور فجر میں چوتھی رکعت ملائے تاکہ وہ طاق عدد میں نفل نہ پڑھے اور اگر وہ اضافی رکعت نہ ملائے تو اس پر کچھ گناہ نہیں، کیونکہ اس نے اس(اضافی رکعت) کو قصداً شروع نہیں کیا تھا، لہٰذا اُس پر اُسے پورا کرنا لازم نہیں، لیکن مستحب ضرور ہے۔ (اللباب فی شرح الکتاب، جلد 1، صفحہ 97، مطبوعۃ المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
اگر قعدہ اخیرہ کیے بغیر پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا، اور سجدہ بھی کرلیا ،تو فرض باطل ہوگئے، اس صورت میں اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہیں، چنانچہ اِس صورت کو بیان کرنے کے بعد ”تنویر الابصار مع در المختار“ میں ہے:
لا يسجد للسهو على الاصح لان النقصان بالفساد لا ينجبر
ترجمہ: اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہیں کرے گا، کیونکہ فساد کا نقصان سجدہ سہو سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ (تنویر الابصار و در المختار، جلد 04، باب سجدۃ السھو، صفحہ 495، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
وصفِ فرضیت کےبطلان سے تحریمہ کا بطلان نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی فرائض کا عارض پیدا ہو جائے تو فرض نفل کی طرف منقلب ہو جاتے ہیں، چنانچہ اِس نفیس فرق کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ امیر الحاج حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 879ھ / 1474ء) لکھتے ہیں:
أن التحريمة انعقدت لصلاة موصوفة بصفة الفرضية، و هذا العارض مناف لوصف الفرضية لا لأصلها، فلا يلزم من بطلانه بطلانها، ثم السنَّة و القياس قاضيان لهما بذلك۔
ترجمہ: تحریمہ ایک ایسی نماز کے لیے باندھی گئی تھی، جو فرضیت کے وصف سے متصف تھی اور یہ درپیش عارض(نماز توڑنے والی وجہ) فرضیت کے وصف کے منافی ہے، نہ کہ نماز کی اصل کے، لہذا وصفِ نماز(فرضیت) کے باطل ہونے سے اصل نماز(تحریمہ) کا باطل ہونا لازم نہیں آتا، پھر سنت اور قیاس بھی ان دونوں کے حق میں یہی فیصلہ کرتے ہیں۔ (حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد 2، صفحہ 454، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
دوسری نظیر: ملک العلماء علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 587ھ / 1191ء) لکھتے ہیں:
أن مصلي الجمعة إذا خرج وقتها وهو وقت الظهر قبل إتمام الجمعة ثم قهقه تنتقض طهارته عندهما۔۔۔ و هذا يدل على أنه بقي نفلا عندهما۔
ترجمہ: جمعہ پڑھنے والا کہ جب جمعہ کا وقت اُس کی نماز مکمل ہونے سے پہلے نکل جائے اور پھر وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے، تو شیخین کے نزدیک اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ یہ مسئلہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نماز شیخین کے نزدیک بطور نفل باقی تھی۔ (یعنی وقتِ ظہر کا نکلنا وصفِ فرضیت کے منافی تھا، نفل نماز کے لیے نہیں، لہذا فرض تو باطل ہو گئے اور نماز نفل میں منقلب ہو کر بطورِ نفل باقی تھی، اِسی لیے قہقہہ کے سبب وضو ٹوٹا۔) (بدا ئع الصنائع، جلد 01، صفحہ 179، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
تیسری نظیر: صاحبِ ترتیب کہ جسے اپنی قضا نماز یاد ہے اور وقت میں وسعت ہے، مگر اِس کے باوجود وہ وقتی نماز پڑھتا ہے، حالانکہ اُس پر پہلے قضا شدہ نماز پڑھنا ضروری تھا، تو ایسی صورت میں اُس کی وقتی نمازفاسد ہے، لیکن یہاں بھی فسادِ فرض کا مطلب یہ نہیں کہ تحریمہ بھی باطل ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ فرض فاسد قرار پائیں گے، لیکن وہ نماز ”نفل“ قرار پائے گی، کیونکہ جو عارض(رعایتِ ترتیب) ہے، وہ فرضوں کے حق میں عارض ہے، نفل کے لیے نہیں، لہذا وہ نماز نفلی شمار ہو گی۔ صاحبِ ترجیح علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:
من صلى العصر وهو ذاكر أنه لم يصل الظهر فهي فاسدة إلا إذا كان في آخر الوقت "و هي مسئلة الترتيب" و إذا فسدت الفرضية لايبطل أصل الصلاة عند أبي حنيفة و أبي يوسف رحمهما اللہ۔۔۔ لهما أنها عقدت لأصل الصلاة بوصف الفرضية فلم يكن من ضرورة بطلان الوصف بطلان الأصل۔
ترجمہ:جس شخص نے عصر کی نماز اس حال میں پڑھی کہ اسے یاد تھا کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی، تو اس کی عصر کی نماز فاسد ہو جائے گی، ہاں بالکل آخری وقت ہو، تو وقتی نماز ہو جائےگی۔ (حنفی فقہ میں) یہ ”مسئلہ ترتیب“ ہے۔ جب ترتیب کی وجہ سے نماز کی فرضیت فاسد ہو گئی تو شیخین کے نزدیک اصلِ نماز باطل نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ نماز ”اصلِ صلاۃ“کے لیے ”فرض“ کی حیثیت سے منعقد ہوئی تھی۔ لہٰذا صرف وصف(فرض کی حیثیت) کے باطل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصل یعنی نفسِ نماز بھی باطل ہو جائے۔ (الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد 01، صفحہ 73، مطبوعۃ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
صاحبِ ہدایہ کی اس عبارت کے تحت صاحبِ فتح القدیر نے باب الصوم سے بھی اصل ووصف کے فرق کی مثال کو بیان فرمایا، نیز دیگر شارحینِ ہدایہ نے اِس مسئلہ پر مختلف اعتبار سے کلام کیا ہے اور یہی ثابت کیا ہے کہ شیخین کا مؤقف راجح ہے۔
یہ تینوں نظائر اور دیگر کثیر مسائل جس ضابطے پر متفرع ہوتے ہیں، اُسے اصول فقہ کی معروف کتاب ”کشف الاسرار عن اصول فخر الاسلام للبزدوی“ میں یوں لکھا گیا:
ليس من ضرورة بطلان الوصف بطلان الأصل لأن قوام الأصل ليس بالوصف۔
ترجمہ:وصف کے باطل ہونے سے اصل کا بطلان لازم نہیں آتا، کیونکہ اصل کا قائم ہونا، وصف کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ (کشف الاسرار عن اصول فخر الاسلام للبزدوی، جلد 1، صفحہ 236، مطبوعہ اسطنبول)
مذکورہ بالا تینوں نظائر میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ نماز میں ایک ایسا عارض لاحق ہو رہا ہے، جو وصفِ فرض کے لیے تو عارِض ہے، لیکن نفل کے لیے نہیں، لہذا وہ نماز فرض سے نفل کی طرف منقلب ہوجاتی ہے، لہذا اِن کو سامنے رکھتے ہوئے سوال میں مذکور صورت کا حکم یہ ہے کہ ٹرین میں فرض پڑھتے ہوئے ٹرین چلنے سے فرض باطل ہو جائیں گے، مگر بطلانِ فرض کا مطلب ”بطلانِ وصفِ فرض“ ہے، کیونکہ عدمِ استقرار والا عارض فرضوں کو متاثر کرتا ہے، جبکہ نفل پر اثر انداز نہیں ہوتا، لہذا فرض باطل ہوں گے، لیکن نماز بطورِ نفل باقی رہے گی اور نمازی نفل کی حیثیت سے اُس نماز کو مکمل کرے گا۔ ہاں چلتی سواری پر نفل کی اجازت بھی شہر سے باہر ہے، شہر کے اندر نہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9391
تاریخ اجراء: 05 محرم الحرام 1447ھ / یکم جولائی 2025ء