
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-649
تاریخ اجراء:24 رجب المرجب1446ھ/27 جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ الٹا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایسا کپڑا پہننا یا کپڑے کو اس انداز میں پہننا جسےپہن کرکوئی مہذب آدمی، بازار میں یا کسی معزز شخص کے سامنے جانے میں شرم محسوس کرے، تو اُس کپڑے یا اُس انداز میں کپڑے پہن کر نماز پڑھنے سے نماز مکروہ تنزیہی ہوتی ہے، مکروہ تحریمی نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ الٹا کپڑا پہن کر کوئی بھی انسان بازار میں یا کسی بڑے معزز شخص کے سامنے جانا ہرگز پسند نہیں کرتا اور اس میں اپنی شرم محسوس کرتا ہے، لہٰذا ایسے لباس میں نماز مکروہ تنزیہی ہے۔
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: ’’(و) كره۔۔۔ (صلاته في ثياب بذلة) يلبسها في بيته (ومهنة) أي خدمۃ إن له غيرها‘‘ ترجمہ: اور کام کاج کے کپڑوں میں جسے کوئی شخص اپنے گھر میں کام کے وقت پہنتا ہے اور صنعت یعنی پیشے کے وقت پہنے جانے والے کپڑوں میں نماز مکروہ ہے، جبکہ دوسرے کپڑے موجود ہوں۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’و فسرها في شرح الوقاية بما يلبسه في بيته ولا يذهب به إلى الأكابر والظاهر أن الكراهة تنزيهية‘‘ ترجمہ: اور اس کی وضاحت شرح الوقایہ میں ایسے لباس کے ساتھ کی ہے کہ جسے کوئی شخص اپنے گھر میں پہنے اور اسے پہن کر اکابرکے پاس نہ جائے،اور ظاہر یہ ہے کہ (اس میں کراہت سے مراد) کراہت تنزیہی ہے۔(تنویر الابصار مع درمختار و رد المحتار، جلد2، صفحہ391،390، دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خا ن علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”کپڑا الٹا پہننا اوڑھنا خلافِ معتاد میں داخل ہے اور خلافِ معتاد جس طرح کپڑا پہن یا اوڑھ کر بازار میں یا اکابر کے پاس نہ جاسکے ضرور مکروہ ہے کہ دربارِ عزت احق بادب و تعظیم ہے۔ ’’واصلہ کراھۃ الصلٰوۃ فی ثیاب مھنۃ قال فی الدر وکرہ صلٰوتہ فی ثیاب مھنۃ۔ قال الشامی وفسرھا فی شرح الوقایۃ بما یلبسہ فی بیتہ ولایذھب بہ الی الاکابر‘‘ اصل یہ ہے کہ کام ومشقت کے لباس میں نمازمکروہ ہے۔ درمیں ہے نمازی کاکام کے کپڑوں میں نمازادا کرنامکروہ ہے۔ شامی نے فرمایا اور اس کی تفسیرشرح وقایہ میں ہے کہ وہ کپڑے جو آدمی گھر میں پہنتاہے مگران کے ساتھ اکابرکے پاس نہیں جاتا۔ (ت) اورظاہر کراہتِ تنزیہی، فان کراھۃ التحریم لابدلھا من نھی غیرمصروف عن الظاھر کماقال ش فی ثیاب المھنۃ والظاھر ان الکراھۃ تنزیھیۃ‘‘ اس وجہ سے کہ کراہتِ تحریمی کے لئے ایسی نہی(ممانعت) کاہونا ضروری ہے جوظاہر سے مؤول(تاویل شدہ) نہ ہو، جیسا کہ علامہ شامی نے کام کے کپڑوں کے بارے میں کہا کہ ظاہرکراہت تنزیہی ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ 359،358، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم