
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ اگر کسی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہو جائے، تو سنا ہے کہ اگر وقت کے اندر نماز کا اعادہ کریں، تو واجب ہونے کے طور پر اعادہ ہو گا اور وقت کے بعد اس کا اعادہ واجب نہیں، بلکہ مستحب ہوتا ہے۔ کیا یہ مسئلہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر نماز میں کوئی ایسا فعل سرزد ہو گیا کہ جس کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہو جائے، تو راجح قول کے مطابق خواہ وقت کے اندر اعادہ کیا جائے یا وقت کے بعد، بہر حال اعادہ واجب ہے اور یہ قول کہ ”وقت میں اعادہ واجب اور وقت کے بعد مستحب ہے۔“ مرجوح ہے، لہٰذااس پہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
(1) اولاً یہ ذہن نشین رہے کہ فقہ کی کتب میں اصول موجود ہے:
”كل صلاة أديت مع كراهة التحريم وجب إعادتها“
ترجمہ: ہر وہ نمازکہ جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو، تو اس کا اعادہ واجب ہے۔ فقہائے کرام نے یہ اصول مطلق بیان فرمایا ہے اور مطلق بغیر کسی قید کے اپنے اطلاق پہ جاری ہوتا ہے، لہٰذا وقت کے اندر ہو یا وقت کے بعد، بہر حال اس نماز کا اعادہ واجب ہے۔
(2) فقہائے کرام میں سے فقط صاحبِ بحر علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ وقت کے اندراعادہ واجب اور وقت کے بعد اعادہ مستحب ہو گا، ان کے علاوہ کسی نے یہ تفصیل بیان نہیں کی، لیکن انہوں نے جس قول کی بنیاد پر یہ تفصیل بیان فرمائی ہے، وہ قول مرجوح و غیرمعتمد ہے،نیزاس قول سے بھی وہ نتیجہ نہیں نکلتا، جو علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے، لہٰذاوقت کے اندر ہو یا بعد، بہر حال وجوبِ اعادہ کا قول ہی راجح و معتمد علیہ ہے۔
اوپر بیان کردہ شرعی حکم کی تفصیل مع دلائل و جزئیات درج ذیل ہے:
فقہ کی کتب میں یہ اصول مطلق ذکر کیا گیا کہ ہر وہ نمازکہ جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو، تو اس کا اعادہ واجب ہے۔ جیسا کہ فتح القدیر، النہر الفائق وغیرہ کتب میں ہے:
(و اللفظ لابن الھمام)” كل صلاة أديت مع كراهة التحريم وجب إعادتها“
ترجمہ: ہر وہ نمازکہ جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو، تو اس کا اعادہ واجب ہے۔ (فتح القدیر، ج 3، ص58، مطبوعہ مصر)
مطلق حکم بغیر کسی قید کے اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے۔ اصول الشاشی میں ہے:
”المطلق یجری علی اطلاقہ و المقید یجری علی تقییدہ“
ترجمہ: مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اور مقید اپنی تقیید پر جاری ہوتا ہے۔ (اصول الشاشی، ص33، دار الکتاب العربی، بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نےمذکورہ مسئلہ میں اس اصول کے اطلاق سے بعدِ خروجِ وقت بھی نماز کا اعادہ واجب ہونے پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
”يجب أن لا يعتمد عليه لإطلاق قولهم: كل صلاة أديت مع الكراهة سبيلها الإعادة. اهـ.قلت: أي لأنه يشمل وجوبها في الوقت وبعده: أي بناء على أن الإعادة لا تختص بالوقت“
ترجمہ: ثابت ہوتا ہےکہ اس (وقت میں اعادے کےواجب ہونے اور وقت کے بعد اعادہ مستحب ہونےکے )قول پہ اعتماد نہ کیا جائے، اس وجہ سے کہ فقہائے کرام کا قول کہ ہر نمازکہ” جس کو کراہت کے ساتھ ادا کیا گیا، تو اس کی درستگی کی راہ اعادہ ہے۔“ یہ مطلق ہے ۔میں کہتا ہوں کہ یہ قول وقت کے اندر اور وقت کے بعد اعادے کے وجوب کو شامل ہے یعنی اس بنا پر کہ اس قول میں اعادہ کسی وقت کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ (رد المحتار، ج 2، ص 630، مطبوعہ پشاور)
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مؤقف بیان فرمایا کہ نماز کےوقت میں اعادہ واجب ہو گا اور وقت گزر جانے کے بعد اعادہ مستحب و افضل ہو گا ۔ البحر الرائق میں ہے:
”ان الاعادۃ فعل مثلہ فی وقتہ لخلل غیر الفساد و عدم صحۃ الشروع و ظاھرہ ان بخروج الوقت لااعادۃ و یتمکن الخلل فیھا مع ان قولھم : ”کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریم فسبیلھا الاعادۃ وجوبا“ مطلق و فی القنیۃ ما یفید التقیید بالوقت فانہ قال : أنه إذا لم يتم ركوعه ولا سجوده يؤمر بالإعادة في الوقت لا بعده، ثم ذكر عن الترجماني أن الإعادة أولى في الحالين. اهـ. فعلى القولين لا وجوب بعد الوقت۔ فالحاصل أن من ترك واجبا من واجباتها أو ارتكب مكروها تحريميا لزمه وجوبا أن يعيد في الوقت، فإن خرج أثم ولا يجب جبر النقصان بعده. فلو فعل فهو أفضل“
ترجمہ: بے شک فساد کے علاوہ کسی خلل کے واقع ہونے یا نماز صحیح شروع نہ ہونے کی وجہ سے نماز کے وقت میں اس کی مثل نماز پڑھنا ”اعادہ“ کہلاتا ہے اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ وقت نکل جائے، تو اعادہ نہیں کہلائے گا اور خلل پختہ و مقرر ہو جائے گا، باوجود یہ کہ فقہاء کا قول: ” ہروہ نما زکہ جس کو کراہت کے ساتھ ادا کیا گیا، تو اس کی درستگی کی راہ اعادہ ہے۔“ یہ مطلق ہے اور قنیہ میں جو لکھا ہے، وہ وقت کے ساتھ مقید ہونے کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ انہوں نے فرمایا : جب کسی نے اپنے رکوع و سجود کو کامل طور پہ ادا نہ کیا، تو اُسے وقت میں اعادے کا حکم دیا جائے گا، نہ کہ وقت کے بعد۔ پھر ترجمانی سے ذکر کیا کہ دونوں حالتوں میں اعادہ اولیٰ ہے۔(صاحبِ بحرنے بحر میں فرمایا:) دونوں اقوال پر وقت کے بعد اعادے کا وجوب ثابت نہیں ہے۔ تو حاصل کلام یہ ہے کہ جس نے واجباتِ نماز میں سے کوئی واجب چھوڑا یا مکروہِ تحریمی فعل کا ارتکاب کیا، تو وقت میں اُس کا اعادہ واجب ہے، اگر وقت گزرگیا، تو وہ گنہگار ہو گا اور اُس نقصان کی تلافی اُس پہ واجب نہیں ہو گی۔ پس اگر وہ اعادہ کر لے، تو افضل ہے۔ (البحر الرائق، ج 2، ص 142، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نےبھی درمختار میں یہ مسئلہ اسی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ چنانچہ درمختار میں ہے:
”كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوبا في الوقت وأما بعده فندبا“
ترجمہ: ہر وہ نمازکہ جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو، تو وقت میں وجوبی طور پر اس کا اعادہ کیا جائے گا اور وقت کے بعد استحبابی طور پر اس کا اعادہ ہو گا۔ (درمختار، ج 2، ص 630، مطبوعہ پشاور)
درمختار کی اس عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ تفصیل فقط صاحبِ بحر علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے:
”لم أر من صرح بهذا التفصيل سوى صاحب البحر، حيث استنبطه من كلام القنية“
ترجمہ: صاحبِ بحر کے علاوہ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نےیہ تفصیل بیان کی ہو۔ (رد المحتار، ج 2، ص 630، مطبوعہ پشاور)
پھر آپ علیہ الرحمۃ نے علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ کے مستدل جزئیات پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل میں قنیہ میں بیان کردہ مسئلے کی بنیاد ایک اور اختلافی مسئلے پر ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر نماز میں فساد کے علاوہ کوئی خلل واقع ہو جائے، توفی نفسہ اس نماز کا اعادہ واجب ہو گا یا نہیں؟ اس پر دو اقوال نقل کیے گئے: (۱) ایک قول کے مطابق اعادہ واجب ہے، یہ قول اوجہ و راجح ہے۔ (۲) دوسرے قول کے مطابق اعادہ واجب نہیں، اولیٰ و مستحب ہے، یہ مرجوح قول ہے۔ چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
”أقول: ما في القنية مبني على الاختلاف في أن الإعادة واجبة أو لا، و قدمنا عن شرح أصول البزدوي التصريح بأنها إذا كانت لخلل غير الفساد لا تكون واجبة. و عن الميزان التصريح بوجوبها. و قال في المعراج: و في جامع التمرتاشي لو صلى في ثوب فيه صورة يكره وتجب الإعادة. قال أبو اليسر: هذا هو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. و في المبسوط ما يدل على الأولوية و الاستحباب، فإنه ذكر أن القومة غير ركن عندهما فتركها لا يفسد، والأولى الإعادة. اهـ. و قال في شرح التحرير: وهل تكون الإعادة واجبة، فصرح غير واحد من شراح أصول فخر الإسلام بأنها ليست بواجبة. وأنه بالأول يخرج عن العهدة وإن كان على وجه الكراهة على الأصح، وأن الثاني بمنزلة الجبر. و الأوجه الوجوب كما أشار إليه في الهداية؛ و صرح به النسفي في شرح المنار، وهو موافق لما عن السرخسي و أبي اليسر: من ترك الاعتدال تلزمه الإعادة. زاد أبو اليسر: و يكون الفرض هو الثاني. و قال شيخنا المصنف: يعني ابن الهمام: لا إشكال في وجوب الإعادة إذ هو الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، و يكون جابرا للأول لأن الفرض لا يتكرر، و جعله الثاني يقتضي عدم سقوطه بالأول، و فيه أنه لازم ترك الركن لا الواجب، إلا أن يقال المراد أن ذلك امتنان من الله تعالى، إذ يحتسب الكامل وإن تأخر عن الفرض لما علم سبحانه أنه سيوقعه انتهى ومن هذا يظهر أنا إذا قلنا الفرض هو الأول فالإعادة قسم آخر غير الأداء والقضاء، وإن قلنا الثاني فهي أحدهما. اهـ.أقول: فتلخص من هذا كله أن الأرجح وجوب الإعادة، وقد علمت أنها عند البعض خاصة بالوقت، وهو ما مشى عليه في التحرير، و عليه فوجوبها في الوقت ولا تسمى بعده إعادة، وعليه يحمل ما مر عن القنية عن الوبري“
ترجمہ: میں کہتا ہوں: جو قنیہ میں لکھا ہے، وہ ایک اختلاف کی بنا پہ ہے، وہ یہ کہ(ترکِ واجب کی صورت میں فی نفسہ) اعادہ واجب ہے یا نہیں؟ اور ہم نے شرح اصول بزدوی سے نقل کر کے یہ تصریح پہلے ذکر کردی ہے کہ جب نماز میں فساد کے علاوہ کوئی خلل واقع ہوجائے، تو نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے اور ہم نے میزان سے اس کے وجوب کی صراحت ذکر کی ہے۔ اور معراج میں فرمایا: جامع تمرتاشی میں ہے کہ اگر کسی ایسے کپڑے میں نماز پڑھی، جس میں تصویر ہو، تو نماز مکروہ ہو گی اور اعادہ واجب ہو گا۔ اور ابو الیسر نے فرمایا: یہ حکم ہر اُس نماز کا ہے، جو کراہت کے ساتھ ادا کی گئی ہو اور جوکلام مبسوط میں ہے، وہ اعادے کے اولیٰ اور مستحب ہونے پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ انہوں نے ذکر کیا کہ قومہ طرفین علیہما الرحمۃ کے نزدیک رکن نہیں ہے، اس کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہو گی اور اس کا اعادہ کرنا اولیٰ ہے۔ اور شرح التحریرمیں فرمایا: کیا اعادہ واجب ہوگا؟ اصول فخر الاسلام کے کئی شارحین نے صراحت کی ہے کہ اعادہ واجب نہیں ہے اور اصح قول کے مطابق پہلی نماز کے ساتھ ہی وہ اپنےاوپر لازم ذمہ داری سے نکل جائے گا اور دوسری نماز نقصان کو پورا کرنے کے منزلے میں ہو گی۔ اور اوجہ وجوب کا قول ہے جیسا کہ اس کی طرف ہدایہ میں اشارہ ہے اور امام نسفی نے شرح المنار میں اس بات کی صراحت کی ہے اور وہ اس کے موافق ہے، جو امام سرخسی اور ابوالیسررحمۃ اللہ علیہما سےمروی ہےکہ جس نے تعدیلِ ارکان کو ترک کیا، اُس پر اعادہ لازم ہے۔ ابوالیسر نے یہ اضافہ کیا کہ فرض وہ نماز ہے، جو دوسری ہے۔ ہمارے شیخ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وجوبِ اعادہ میں کوئی اشکال نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم ہر اُس نماز کا ہے، جو کراہت کے ساتھ ادا کی گئی ہو اور دوسری نماز پہلی نماز کے نقصان کی تلافی کرنے والی ہے، کیونکہ فرض متکرر نہیں ہوتا اور دوسری نماز کا یہ تقاضا ٹھہرانا کہ پہلی نماز سے فرض ساقط نہیں ہوا، اس سے یہ لازم آئے گا کہ رکن ترک ہوا، نہ کہ واجب، مگر یہ کہ یوں کہا جائے کہ مراد یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک احسان ہے کہ اُسے کامل شمار کر لے، اگرچہ وہ دوسری نماز فرض سے متاخر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ دوبارہ نماز پڑھے گا۔ انتہیٰ۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم یہ کہیں کہ فرض وہ پہلی نماز ہے، تویہ اعادہ کرنا ادا و قضا کے علاوہ ایک الگ قسم ہو گی اور اگر دوسری نماز سے فرض ادا ہو رہا ہے، تو یہ فرض و قضا میں سے ہی ایک نماز قرار پائے گی۔ میں کہتا ہوں: اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ارجح وجوبِ اعادہ کا قول ہے اور تم جان چکے کہ بعض کے نزدیک یہ وقت کے ساتھ خاص ہے اوریہ وہ مؤقف ہے، جو صاحب تحریر نے تحریر میں اپنا یا اور اس قول پر وقت میں اعادے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور اس کے بعد پڑھنے کا پچھلی نماز کا اعادہ نہیں کہا جائے گا اور اسی پر وہ کلام محمول ہو گا، جو قنیہ نے وبری سے روایت کیا۔ (رد المحتار، ج 2، ص 630، مطبوعہ پشاور)
اور ان جزئیات سے وہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ نے اخذ فرمایاہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا:
”و أما على القول بأنها تكون في الوقت و بعده كما قدمناه عن شرح التحرير و شرح البزدوي، فإنها تكون واجبة في الوقت و بعده أيضا على القول بوجوبها. و أما على القول باستحبابها الذي هو المرجوح تكون مستحبة فيهما، و عليه يحمل ما مر عن القنية عن الترجماني. و أما كونها واجبة في الوقت مندوبة بعده كما فهمه في البحر و تبعه الشارح فلا دليل عليه. و قد نقل الخير الرملي في حاشية البحر عن خط العلامة المقدسي أن ما ذكره في البحر يجب أن لا يعتمد عليه“
ترجمہ: اور اس قول پر کہ وقت میں اور وقت کے بعد اعادے کا حکم ہے، جیسا کہ ہم نے اسے شرح تحریر اور شرح بزدوی سے نقل کر کے پیچھے ذکر کیا، اس( قول) پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وقت میں یا وقت کے بعد اعادہ واجب ہے اور اعادے کے مستحب ہونے کے قول پر، جو کہ مرجوح قول ہے، یہ ثابت ہوتا ہے کہ وقت میں یا وقت کے بعد (دونوں حالتوں) میں اعادہ مستحب ہے۔قنیہ نے ترجمانی سے جو نقل کیا، اُسے اِس پر محمول کیا جائے گا اور وقت میں وجوب اور وقت کے بعد مستحب ہونے کا کہنا جیسا کہ صاحبِ بحر نے سمجھا، (اس تفصیلی کلام سے) ثابت ہوتا ہے کہ اس قول پہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (رد المحتار، ج 2، ص 630، مطبوعہ پشاور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7557
تاریخ اجراء: 29 رجب المرجب 1446 ھ/ 30 جنوری 2025 ء