Zakat Lene Wale Imam Ke Peeche Namaz Ka Hukum

 

زکوٰۃ لینے والے امام کے پیچھے نماز کا حکم

مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3380

تاریخ اجراء: 23جمادی الاخریٰ 1446ھ/26دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں     کہ   ایک  امام  مستحق  زکوۃ ہے   تو کیا  اسے زکوۃ دے سکتے ہیں ؟  اور اگر وہ سامنے سے  خود زکوۃ کا سوال کرے تو  کیا اسے زکوۃ دینا  درست ہوگا   اور اس صورت میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی خرابی  ہوگی یا نہیں ؟ اس بارے میں شرعی رہنمائی  فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسا امام جو  مستحق زکوۃ  ہویعنی شرعی فقیر  ہو (کہ  ضرورت سے زائدنصاب کے برابرمال کامالک نہ ہو)اور سادات کرام و بنو ہاشم میں سے   نہ ہو تو اسے بلاشبہ  زکوۃ کی رقم  دینا جائز   ہے جبکہ تنخواہ میں نہ دی جائے بلکہ علیحدہ سے دی جائے، اس سے اس کی امامت پر کوئی حرج نہیں آئے گا ۔

   البتہ !زکوۃ مانگنے  کے  بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ جس کے پاس اپنی ضروریاتِ شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار مال موجود ہو یا اتنا مال تو نہ ہو،لیکن کما کر ضروریات پوری کرسکتا ہو،تو ایسے شخص کا سوال کرنا حرام ہے لہذا بیان کردہ صورت میں اگر امام کے پاس  ضروریات کے مطابق نہ مال ہے اور نہ ہی اتنا  کمانے پر قادر    ہے تب تو اسے اپنی ضرورت کے بقدر سوال کرنا جائز ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج نہیں اوراگر امام  اپنی ضرورت  پوری کرنے پر قادر ہے تو    اس کا سوال کرنا ناجائز وحرام ہےالبتہ انہیں زکوۃ دے دی تو  ادا ہوجائے گی  ۔

      پھر جس صورت میں اسے سوال کرناجائزنہیں ،اس صورت میں اگر  یہ اعلانیہ لوگوں سے  اپنی ذات  کے لئے  سوال کرتا ہے تو فاسق معلن ہے،  جب تک اس عادت  سے علی الاعلان توبہ    نہ کرے اس کے  پیچھے  نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے ۔

    شرعی فقیر  کے متعلق در مختار  میں ہے :’’( فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة‘‘ ترجمہ :   شرعی فقیر  وہ ہے جس کے  پاس  قلیل مال ہو یعنی  نصاب سے کم ہو  یا  نصاب کی بقدر ہو  لیکن غیر نامی ہو  اور  حاجت میں مستغرق  ہو ۔(در مختار  مع  رد المحتار ، ج 2 ،ص 339 ، دار الفکر ،بیروت)

   فتاوی  امجدیہ میں  صدر الشریعہ  علیہ الرحمہ  سے سوال ہوا :” امام اگر صاحب نصاب نہ ہو  تو  کیا زکوۃ، فطرہ لے سکتا ہے  ، اس سے اس کی امامت میں نقص تو نہیں ہوگا جبکہ  وہ  نہ معاوضہ سمجھ کر لیتا ہے اور نہ  دینے والے کا  یہ خیال ہوتا ہے ؟ (ملخصاً)

   آپ علیہ الرحمہ  نے اس کے جواب میں ارشاد  فرمایا :” ایسا شخص صدقہ  فطر  اور زکوۃ  لے سکتا ہے  جبکہ  لینا  اور  دینا  اجرتِ امامت میں  نہ ہو ، امامت  میں  اس کی وجہ سے کوئی حرج نہیں ۔( فتاوی امجدیہ ، ج 1 ،ص 144 ، مکتبہ رضویہ، کراچی )

   درمختار میں ہےولا یحل ان یسال من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوۃکالصحیح المکتسب ویاثم معطیہ ان علم بحالہ لاعانتہ علی المحرم ‘‘ترجمہ:جس کے پاس بالفعل آج کے دن کا کھانا ہےیا بالقُوّہ جیسے وہ تندرست اور کمانے پر قادر ہے،تو اسے کھانے کےلیے سوال حلال نہیں اور ایسے شخص کو دینے والا گنہگار ہو گا،اگر اسے اس کی کیفیت کا علم ہو، کیونکہ یہ حرام پر معاونت ہے۔ (درمختارمع  رد المحتار  ،ج2،ص354،355، دارالفکر،بیروت(

   فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ   فرماتے ہیں:” گدائی  تین قسم ہے ۔۔۔دوسرے وُہ کہ واقع میں فقیر ہیں، قدرِ نصاب کے مالک نہیں مگر قوی و تندرست کسب پر قادر ہیں اور سوال کسی ایسی ضروریات کے لیے نہیں جوان کے کسب سے باہر ہوکوئی حرفت یا مزدوری نہیں کی جاتی مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں انہیں سوال کرنا حرام، اور جو کچھ انہیں اس سے ملے وہ ان کے حق میں خبیث  ۔۔۔انہیں بھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ اگر نہ دیں تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں۔ ۔۔مگر ان کے دئے سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی جبکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو کہ فقیرہیں، قال ﷲتعالیٰ: انماالصدقت للفقراء۔(اﷲتعالٰی کا فرمان مبارک ہے: صدقات فقراء کے لیے ہیں۔)(فتاوی رضویہ ، ج 10 ، ص253، 254 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوی بحر العلوم میں ہے :”  جب امام صاحب علی الاعلان  لوگوں  سے  امداد  کے طالب  ہوتے ہیں تو  ارتکاب  حرام کرتے  ہیں  ۔۔۔اگر ۔۔۔علی الاعلان  توبہ  نہیں کرتے اور اپنی  عادت  نہیں چھوڑتے  تو  وہ فاسق معلن  ہیں ۔( فتاوی بحر العلوم ، ج 1 ، ص 430 ، شبیر برادرز،لاہور )

   فاسق  کی امامت کے متعلق  فتاوی رضویہ میں ہے :” جوشخص فا سق و فا جر ہے اس کے پیچھے نما ز مکر و ہ ہے  پھر اگر فا سق معلن ہے تو کر ا ہت تحر یمی ہے اور اعا دہ وا جب ، ور نہ تنز یہی اور اعا دہ بہتر ،واللہ تعا لی اعلم۔(فتاوی رضویہ ، ج 28 ، ص 51 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سوال کرنے  والے  کی امامت کے متعلق  فتاوی تاج الشریعہ میں  ہے :”  صدقہ  فطر  کھانے والے  کے پیچھے  نماز جائز ہے  یا نہیں ؟ باوجود  یہ کہ وہ مالک نصاب نہیں   ہے ؟

   جواب : اس کی اقتدا جائز ہے  جبکہ  بے سوال (بغیر مانگے  ) لیتا ہو  ، یونہی  اگر بقدر  کفایت  کمانے  پر قدرت  نہ ہو  تو ملزم  نہیں  اور  اگر یہ بقدر کفایت  کرسکے  تو سوال کرناناجائز  ہے اور اس کی امامت مکروہ ہے ۔(فتاوی تاج الشریعہ ، ج 4 ،ص 77 ، مطبوعہ شبیر برادرز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم