
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ
(1) قربانی واجب ہے؟ اس کے واجب ہونے کی دلائل کیا ہیں؟
(2) ایک شخص کا کہنا ہے کہ قربانی واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، کیونکہ ایک تو اسے حدیث پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کہا گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قربانی ادا نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنت ہے، برائے کرم ان کے متعلق رہنمائی کر دیجئے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)ہر عاقل، بالغ، آزاد، مقیم ، مسلمان (مرد و عورت) جو ایامِ قربانی (10 ذو الحج کے طلوعِ فجر سے لےکر 12 ذو الحج کی غروبِ آفتاب تک) میں کسی بھی وقت مالکِ نصاب ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔ اس کے وجوب پر قرآن و حدیث میں متعدد دلائل موجود ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
قربانی کے لئے امر کاصیغہ :
قرآنِ کریم و احادیثِ طیبہ میں قربانی کے لیے امر (حکم) کا صیغہ وارد ہوا ہے اور مطلق امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ اس کے خلاف پر قرینہ موجود نہ ہو۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ﴾
ترجمۂ کنز العرفان:’’تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘ (پارہ 30، سورۃ الکوثر، آیت3)
حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’یا ایھا الناس ضحوا‘‘
ترجمہ:اے لوگو ! قربانی کرو۔(المعجم الاوسط ، جلد08، صفحہ 176، مطبوعہ قاھرۃ)
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ضحوا و طیبوا بھا انفسکم ‘‘
ترجمہ : قربانی کرو اور خوش دلی سے کرو ۔(مصنف عبد الرزاق ، جلد 04، صفحہ 388، مطبوعہ کراچی)
مبسوط سرخسی میں ہے :
’’وحجتنا فی ذلک قولہ تعالی﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ ﴾ ای انحر الاضحیۃ، الامر یقضی الوجوب‘‘
ترجمہ : ہماری دلیل قربانی کے وجوب میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ ﴾یعنی قربانی کرو (اور) امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔ (مبسوط سرخسی ، کتاب الذبائح، جلد 12، صفحہ 11، مطبوعہ کوئٹہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مواظبت (ہمیشگی) فرمانا:
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی عمل پر مواظبت (ہمیشگی) فرمائیں ، تو یہ بھی دلیلِ وجوب شمار ہوتی ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی پر بھی مواظبت فرمائی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی کل سنۃ“
ترجمہ:رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اورحضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہر سال قربانی فرمائی۔ (جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، جلد3،صفحہ 144،مطبوعہ بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
”مما یدل علی الوجوب مواظبتہ علیہ الصلاۃ و السلام عشر سنین مدۃ اقامتہ بالمدینۃ“
ترجمہ: وجوب کے دلائل میں سے ایک دلیل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران قربانی پر مواظبت اختیار فرمانابھی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الاضحیۃ، جلد 3،صفحہ 1077، مطبوعہ بیروت)
قربانی نہ کرنے پر وعید:
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر حدیث پاک میں وعید (زجر و توبیخ) وارد ہوئی ہے اور شریعتِ مطہرہ میں ایسا اسلوب واجب و لازم چیز چھوڑنے پر اختیار کیا جاتا ہے۔سنن ابن ماجہ میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا‘‘
ترجمہ : جسے استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہمارے مصلے (عید گاہ) کے قریب بھی نہ آئے ۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی، جلد 02، صفحہ 1044، بیروت)
بدائع الصنائع اور مبسوط سرخسی میں مذکورہ حدیث پاک نقل کرنے کے بعد فرمایا:
والنظم للثانی:’’ والحاق الوعید لا یکون الا بترک الواجب‘‘
ترجمہ : وعید کا الحاق ترکِ واجب پر ہی ہوتا ہے ۔ (مبسوط ، کتاب الذبائح، باب الاضحیۃ، جلد 12، صفحہ 11، کوئٹہ)
قربانی کے اعادہ کا حکم:
جہاں نمازِ عید کا حکم ہے، وہاں اگر کوئی شخص نمازِ عید سے قبل قربانی کر لے، تو اس کی قربانی نہیں ہو گی، اسی لیے حدیث پاک میں اسے اعادے کا حکم دیا گیا ہے، اگر قربانی واجب نہ ہوتی، تو اعادہ کا حکم نہ دیا جاتا ۔
صحیح بخاری میں ہے،حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ من ذبح قبل الصلاۃ فلیذبح مکانھا اخری “
ترجمہ:جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی، تووہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے۔ (صحیح البخاری، جلد 2، صفحہ 827، مطبوعہ کراچی)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
”فلیذبح اخری مکانھا فانہ لا یعرف فی الشرع الامر بالاعادۃ الا للوجوب“
ترجمہ:حدیث مبارک کے الفاظ”تو وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے۔“ شرع مطہر میں اعادے کا حکم دینا واجب چیز کے بارے میں ہی معروف ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الاضحیۃ، جلد 3،صفحہ 1077، مطبوعہ بیروت)
(2)سوال میں قربانی کے واجب نہ ہونے پر جو دلائل ذکر کیے ہیں، ان سے قربانی کا عدمِ وجوب ثابت نہیں ہوتا، ان دونوں دلائل کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)حدیث پاک میں قربانی کو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کہا گیا ہے، یہ ا س کے وجوب کے منافی نہیں ہے، کیونکہ یہاں سنت سے مراد پسندیدہ طریقہ اور اچھی خوبی ہے اور یہ صفت واجب میں بھی پائی جاتی ہے، لہذا اسے عدمِ وجوب پر دلیل بنانا درست نہیں ۔
سنن ابن ماجہ میں ہے، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ”سنۃ ابیکم ابراھیم “ترجمہ:یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (سنن ابن ماجہ، جلد2،صفحہ 1045، مطبوعہ بیروت)
اس حدیث پاک پر کلام کرتے ہوئے علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”فانھا سنۃ ابیکم لا ینفی الوجوب لان السنۃ ھی الطریقۃ فی الدین واجبۃ کانت او غیر واجبۃ“
ترجمہ:یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ یہ وجوب کے منافی نہیں ہے، اس وجہ سے کہ سنت کا معنیٰ دین کا طریقہ ہے، خواہ وہ طریقہ واجب ہو یا نہ ہو۔ (فتح القدیر، جلد9،صفحہ 509، مطبوعہ بیروت)
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”اطلاق اسم السنۃ علی الواجب جائز لا ن السنۃ عبارۃ عن الطریقۃ المرضیۃ او السیرۃ الحسنۃ و کل واجب ھذا صفتہ کذا “
ترجمہ:سنت کا اطلاق واجب پر ہو سکتا ہے ، کیونکہ سنت پسندیدہ طریقے یا اچھی سیرت کو کہتے ہیں اور ہر واجب میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ (البحر الرائق، باب العیدین، جلد2،صفحہ 177، مطبوعہ بیروت)
(۲)سوال میں حضراتِ شیخینِ کریمین (رضی اللہ عنہما) والی جس روایت کا ذکر کیا گیا ہے، اولاً وہ ملاحظہ فرمائیں:
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ معرفۃ السنن والآثار اور السنن الکبری میں فرماتے ہیں:
واللفظ للاول:’’ قال الشافعي: قدبلغنا أن أبا بكر الصديق وعمر رضي اللہ عنهما كانا لا يضحيان كراهية أن يقتدى بهما، فيظن من رآهما أنها واجبة ‘‘
ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما اس خوف سے قربانی نہیں کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کی جائے گی اور جو انہیں قربانی کرتا دیکھے گا وہ سمجھے گا کہ قربانی واجب ہے ۔ (معرفۃ السنن والآثار ، جلد 14، صفحہ 15،مطبوعہ قاھرہ)
اس روایت کا محمل:
یہ روایت بھی قربانی کے نفسِ وجوب کے منافی نہیں ،کیونکہ قربانی واجب ہونےکی شرائط میں سے "صاحبِ نصاب" ہونا بھی ہےاور حضراتِ شیخین کریمین ( سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ) کے صاحب نصاب نہ ہونے کی وجہ سے ان پر قربانی لازم نہ تھی، تو اگر آپ حضرات قربانی واجب نہ ہونے کے باوجود مسلسل قربانی کرتے ، توآپ کے مقتدیٰ و پیشوا ہونے کی وجہ سے لوگ یہ گمان کر لیتے کہ جو صاحب نصاب نہ ہو ، اس پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے،تو ان کاقربانی ترک کرنا عوام کو غلط فہمی سے بچانے کے لیے تھا، لہذا اس روایت کو عدمِ وجوب کے طور پر پیش کرنا محض غلط ہے۔
محدث کبیر علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ اس روایت پر کلام کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں :
’’أقول: على تقدير صحة النقل عنهما يحمل على أن الأضحية لم تكن واجبة عليهما لعدم وجود النصاب عندهما، وتركاها كراهة أن يرى أنها واجبة حتى على الفقراء‘‘
ترجمہ : شیخین کریمین سے اس بات کے منقول ہونے کی صحت کی تقدیر پر میں یہ کہتا ہوں کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں حضرات پر قربانی کا نصاب نہ ہونے کی وجہ سےقربانی واجب نہ تھی اور انہوں نے اسی وجہ سے قربانی ترک کی کہ کوئی دیکھنے والا یہ نہ سمجھے کہ فقراء پر بھی قربانی واجب ہے۔ (مرقاۃالمفاتیح ، باب فی الاضحیۃ، جلد3 ، صفحہ1081، مطبوعہ بیروت)
الاختیار لتعلیل المختار میں اور عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
(واللفظ للاول) :’’ وأبو بكر وعمر كانا فقيرين فخافا أن يظنها الناس واجبة على الفقراء ‘‘
ترجمہ : حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما غنی نہیں تھے،تو انہوں نے قربانی اس خوف سے ترک کردی کہ لوگ فقیر پر بھی قربانی واجب ہونے کا گمان نہ کریں۔ (الاختیار لتعلیل المختار ، جلد5 ، صفحہ17، مطبوعہ قاھرہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: 7595- Pin
تاریخ اجراء: 07ذوالحجۃ الحرام1446ھ04جون 2025ء