
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام صاحب کی رہائش مسجد کے وضو خانے کے اوپر ہے، تو کیا امام صاحب کی رہائش کے بجلی، گیس وغیرہ کے بلز مسجد انتظامیہ پر دینا لازم ہیں؟ اور کیا وہ چندے سے دے سکتے ہیں یا امام صاحب کو خود ہی اداکرنے ہوں گے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مسجد میں چندہ دینے والے جب عُمومی اخراجات کے لیے چندہ دیں، تو اس کو عُرف کے مطابق مسجد کے ساتھ مصالحِ مسجد میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور بقدرِ ضرورت عُرف کے مطابق اِمام مسجد کی رہائش بھی اِنہی مصالح و مصارفِ مسجد میں شامل ہے اور ہمارے عرف میں مسجد کے ساتھ متصل امام مسجد کی رہائش گاہ کی مرمت اور اس کا بجلی، گیس کا بِل بھی مسجد کے مصالح میں شمار ہوتا ہے، اس لیے کہ رہائش دینا فقط عمارت کھڑی کر دینے کا نام نہیں ہوتا، بلکہ اس کے جملہ لوازمات بھی شامل ہوتے ہیں، لہٰذا مسجد کے عمومی چندہ سے یہ اخراجات کرنابلاشبہ جائز ہے اور یہ سہولیات مہیا کرنا مسجد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اِس پرعرف قائم ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ مسجد میں امام کا تقرر کرتے وقت ماہانہ وظیفہ کے ساتھ رہائش، اس کےبجلی،گیس کے بلز وغیرہ بھی ادا کرنے کی ذمہ داری لی جاتی ہے اور اگر اس کو ذکر نہ بھی کیا جائے،تب بھی رائج اور معروف ہونے کی وجہ سے ان کی ادائیگی کی جاتی ہے، البتہ جہاں یہ سہولیات نہ ہوں یا نہ دینی ہوں، تو وہاں پہلے ہی امام کو صراحتاً بتادیا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ پوچھی گئی صورت میں جب امام صاحب کو مسجد کی رہائش دی ہے، تو جملہ معروف اور مُروّجہ لوازمات یعنی بجلی، گیس کےبلز کےاخراجات دینا مسجد انتظامیہ پر لازم ہے اور یہ مسجد کے عُمومی چندے سے دئیے جاسکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام پر بھی لازم ہے کہ صرف عُرف کے مطابق ہی بجلی، گیس وغیرہ کا استعمال کرے، عُرف سے ہٹ کر استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں، ورنہ وقف کا خلافِ عُرف مَصرف میں استعمال کرنے پر تاوان لازم ہوگا۔ تنبیہ: فی زمانہ ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ اَئمہ مساجد کو زیادہ تنخواہ دینا تو درکنار اتنی تنخواہ بھی نہیں دی جاتی جو اس کی ضروریات کو کافی ہو اور جو دی جاتی ہے وہ بھی پورے وقت پہ ادا کرنے کا ذہن نہیں ہوتا، ایسی صورتِ حال میں اگر امام کے ذمہ بجلی، گیس اورپانی وغیرہ کا بل بھی ڈال دیا جائے، تو اس کی تنخواہ تو انہی کاموں میں لگ جائے گی اور دیگر ضروریاتِ زندگی پوری کرنا انتہائی دشوار کن حدتک چلا جائےگا، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے اَئمہ کرام کو کم از کم اتنی سہولیات(Facilities) ضرور فراہم کریں کہ جس سے متوسط درجے کی زندگی گزاری جا سکتی ہو اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ سعادت سمجھ کر اس خدمت میں حصہ لیا کریں۔
جزئیاتِ فقہ ملاحظہ کیجیے:
مسجد کے عمومی چندے کی رقم اِمام صاحب کی رہائش پر لگا سکتے ہیں، كيونكہ امام مسجد کی رہائش بھی مصالح ِمسجد میں سے ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:
انہ من المصالح
ترجمہ: امام مسجد کی رہائش کے لیے گھر بنانا مصالح ِ مسجد میں سے ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، جلد 6، صفحہ 549، مطبوعہ کوئٹہ)
تعمیرِ مسجد کے بعد سب سے پہلے امام مسجد کی ضروریات پوری کرنا ضروری ہے، لہٰذا امام مسجدکوچندے سےاس کی ضروریات کے مطابق بقدرِ کفایت دیا جائے گا، چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:
قال: والذي يبتدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أو لا، ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحة، كالامام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم
یعنی وقف کی رقم کو سب سے پہلے وقف کی عمارت کو بلند کرنے پر خرچ کیا جائے گا، واقف نے اس کی شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو، پھر اُس پر خرچ کیا جائے گا جو عمارت کے معاملات کے قریب ہو اور مصلحت کے زیادہ لائق ہو، جیسے مسجد کے لیے امام اور مدرسے کا مدرس، ان کو بقدر کفایت مالِ وقف سے دیا جائے گا۔ (البحر الرائق، جلد 12، صفحہ 91، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
یونہی تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
(ويبدأ من غلته بعمارته)ثم ما هو أقرب لعمارته كامام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم)
ترجمہ: اور وقف کی آمدن سب سے پہلے اس کی عمارت پر لگائی جائے گی، عمارت کے بعد آمدنی اس چیز پر صرف کی جائے گی جو عمارت سے قریب تر (اور با عتبار ِمصالح مفید تر ہو کہ یہ معنوی عمارت ہے) جیسے مسجدکے ليے امام اور مدرسہ کے ليے مدرس (کہ ان سے مسجد و مدرسہ کی آباد کاری ہے، لہٰذا) اِن کو بقدر کفایت وقف کی آمدنی سے دیا جائے گا۔ (تنویر الابصار و در مختار، کتاب الوقف، جلد 6، صفحہ 562، مطبوعہ کوئٹہ)
مسجد کے چندے سے امام صاحب کی رہائش اور ضروریات پوری کرنے سےمتعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ/ 1982ء) لکھتے ہیں: ”ہاں!اِسی مسجد کے امام صاحب کا رہائشی مکان بنا سکتے ہیں، کیونکہ تکمیل ِ تعمیر کے بعد ضروریاتِ مسجد میں سے امام اول نمبر میں ہے، کیونکہ مسجد کی صرف ظاہری تعمیر کاکوئی اعتبار نہیں، جب تک کہ اس کی معنوی اور حقیقی تعمیر نہ ہو، حتی کہ مسجد کے لیے روشنی، پانی وغیرہ کے وسیع تر انتظام سے امام کی ضروریات مقدم ہیں، فتاوی عالمگیری، جلد 2، ص 368 میں ہے:
الذي يبدأ من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أم لا، ثم ما هو أقرب إلى العمارة و أعم للمصلحة كالامام للمسجد و المدرس للمدرسة يصرف إليهم بقدر كفايتهم كذا في السراج والبسط كذلك إلى آخر المصالح، هذا إذا لم يكن معينا
اور فتاوی شامی میں ہے:
و هو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره۔“(فتاویٰ نوریہ، کتاب الوقف، جلد3، صفحہ 184، مطبوعہ بصیر پور)
اس جزئیےاور اوپر ذکرکردہ جزئیات سے واضح ہوا کہ مسجد کاچندہ مسجد کی تعمیرِ حقیقی اور تعمیرِ معنوی میں عُرف کے مطابق صَرْف کیا جائے گا اور وہ بھی بقدرِ کفایت دینا ضروری ہے، لہٰذا امام صاحب(جن سے مسجد کی حقیقی و معنوی تعمیر ہے) کی رہائش اور اِس کے متعلقہ اُمور بجلی، گیس کے بلزبھی چندے سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔
”فتاوی بحر العلوم“ میں امام کے لیے خاص مسجد کی بجلی کے استعمال کے متعلق سوال ہوا، تو اس کے جواب میں علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1434ھ/ 2012ء) لکھتے ہیں:” فتاوی رضویہ، جلد ششم، ص 377(قدیم) میں ہے۔ وقف میں شرائطِ واقف کا اتباع ضروری ہے۔ اشباہ و النظائر میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع اى فى المفهوم و الدلالة و في وجوب العمل به۔
اگر واقف نے یہی ان مواقع میں صَرف کی اجازت دی ہے، تو جواِن میں مصرف خیر ہواُس میں صَرف کرنا، جائز ہے اور شرائطِ واقف معلوم نہ ہوں، تو متولیوں کے عمل در آمد قدیم پر نظر ہوگی۔ (16 / 225، ط: رضا فاؤنڈیشن) پس اس جزئیے کے پیش نظر اگر واقف نے خود ہی امام کے لیے کمرہ رہائش کے جملہ لوازمات کے ساتھ دینے کا تفصیلی ذکر کیا ہے یا عدمِ ذکر کی صورت میں اس وقف کے متولی امام کو ایسی آسانی دیتے آئے ہوں، جیسا کہ آج کل شہروں کی مسجدوں میں اس قسم کی ساری سہولتیں فراہم ہوتی ہیں، تو ہیٹر یا انگیٹھی، وغیرہ کے لیے امام کو مسجد کی بجلی کا استعمال جائز ہوگا اور ایسا نہ ہو تو اس کا معاوضہ دینا پڑے گا۔
مزید لکھتے ہیں: ایک صورت یہ بھی ہے کہ امام نے ملازمت طے کرتے وقت ان سہولتوں کی شرط لگائی ہو، تو یہ سب آسائشیں جن کے بارے میں امام اور مسجد کے منتظمین کے درمیان بات طے ہو گئی ہو اس کا انتظام منتظمین کو کرنا ہوگا، وقف کے شرائط یا متولیوں کے عمل درآمد میں اس کی گنجائش ہو، تو وقف کی آمدنی سے اور ان میں ذکر نہ ہو تو منتظمین اس کے لیے آمدنی کے لیے ذرائع پیدا کریں کہ”المرأ ماخوذ باقراره“ جب منتظمین اس کے دینے کا اقرار کر چکے ہوں، تو انہیں اس کو فراہم کرنا ہوگا اور اگر کہیں ایسا ہو کہ اَئمہ ان آسانیوں کے بغیر ٹکتے نہ ہوں، تو صالح مسلمانوں کے رائے مشورہ سے وقف کی آمدنی سے بھی اس کو دیا جا سکتا ہے۔ فتاوی رضویہ میں ج 2،ص 372(قدیم) پر بزازیہ سے ہے:
اذ اکان الامام و المؤذن لا یستقر لقلۃ المرسوم لحاکم الدین ان یصرف الیہ من فاضل وقف المصالح و العمارۃ باستصواب اھل الصلاح من المحلۃ،
یعنی جب امام اور موذن معاوضہ کی قلت کی وجہ سے نہ ٹھہرتے ہوں، تو دیندار حاکم اہلِ محلہ کے دیندار نیک مسلمانوں سے مشورہ کر کے مصالحِ وقف یا تعمیر کی فاضل رقم سے ان کی ضرورت کے مطابق انہیں معاوضہ دے۔ (فتاوی بحر العلوم، جلد 5، صفحہ 129، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
امام کو بھی صرف عُرف کے مطابق ہی مسجد کی بجلی و غیرہ استعمال کرنے کی اجازت ہے، ورنہ جن مصارف میں نصاً یا عرفا ً استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو، اُن میں وقف کا خلافِ مصرف استعمال کرنے سےتاوان لازم ہوگا، جیسا کہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”یہ تصرفات محض ظلم و اسراف وتضییع مال اوقاف ہیں،علماء نے ایک چراغ وقف کے صبح تک روشن رکھنے کو ناجائز بتایا جب تک واقف سے نصاً یا عرفاً اس کی اجازت ثابت نہ ہو نہ کہ بار بار یہ ہزارہا روپوں کا صَرفِ بیکار، متولیوں کو کسی صَرفِ جدید کے احداث کی اجازت نہیں ہوسکتی، اگر بلا مسوغ شرعی اس میں مال وقف صَرف کریں گے، وہ صَرف ان کی ذات پر پڑے گا اور جتنا مالِ مسجد اس میں خرچ کیا اس کا تاوان اُن پر لازم ہوگا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 235، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
چندہ غیر مَصرف میں استعمال کرنےوالے پر توبہ بھی لازم ہے، چنانچہ امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:”(اُس پر) توبہ و استغفار فرض ہے اور تاوان لازم،پھر دے دینے سے تاوان ادا ہو گیا وہ گناہ نہ مٹا جب تک توبہ نہ کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 489، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Fsd-9381
تاریخ اجراء: 26 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 23 جون 2025ء