
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زید کا دو مرلے گھرتھا اس کے پیچھے بکر کا چار مرلے کا پلاٹ تھا۔ بکراپنی جگہ پر مسجد بنانا چاہتا تھا اور زید کا مکان جو متصل ہے اس کو مسجد میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ زید اپنا مکان بیچنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ زید کو اس کے مکان کی قیمت کم دی جارہی تھی۔ بکر کو اپنے چارمرلے والی جگہ کے لئے بھی راستہ گلی سے مل رہا تھا اور زید کے علاوہ بھی ایک پلاٹ اور ساتھ خالی پڑا تھا۔ بکر نے زید کے والد کو ساڑھے چار لاکھ کی رقم دے کرجگہ خرید لی جبکہ اس جگہ کی قیمت اس سے زیادہ بنتی تھی۔
جب زید کو اس بات کا پتہ چلا کہ میرے والد کو پیسے دے کر میرا گھر خرید لیا گیا ہے تو زید نے فورا اس کا انکار کیا اور قانونی کاروائی کی کہ میں یہ جگہ بیچنے پر راضی نہیں۔ بکر نے جگہ کی رقم دیتے ہی فورا زید کا سامان باہر نکال کر اس گھر کو ختم کردیا اور مسجد کی جگہ میں شامل کردیا۔ زید کے گھر والی جگہ پر مسجد کے استنجاء خانے بنا دیئے ہیں۔ شرع اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کیا یہ جگہ مسجد کی ہوگئی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیان کی گئی صورت کے مطابق یہ بیع نہیں ہوئی۔ یہ جگہ ابھی بھی زید کی ملکیت ہے۔ اس پر بکر کا اس طرح مسجد بنا دینا درست نہ تھا، جب یہ مکان زید کا تھا تو زید کے والد کا زید کی طرف سے بیچنا شرعی رو سے ایک فضولی عمل تھا جو زید کی اجازت پر موقوف تھا، جب زید نے بعد میں اس خرید و فروخت کو منظور نہ کیا تو بیع باطل ہوگئی ۔
اب اس جگہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ بکر وہ جگہ زید کو راضی کرکے اس سے خریدے۔ اگر زید اپنی خوشی سے فی سبیل اللہ مسجد کو دیدے تو ثواب عظیم کمائے گا اور اگر کچھ کم قیمت میں بیچ دے تب بھی ثواب کا مستحق ہے۔ اگر مکمل جگہ اور اس پر پہلے تعمیر ہوئے گھر کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے تو شرعا اس کی بھی اجازت ہے۔
اگر زید کسی صورت جگہ مسجد کو دینے کے لئے راضی نہیں تو شرع اس کی بھی اجازت دیتی ہے کہ اسے اس کی اصل جگہ واپس کی جائے۔ اس صورت میں زید کے مکان کو جو ختم کیا گیا، اس پر جو جدید تعمیرات ہوئیں، اب اس جدید تعمیرات کا کیا کیا جائے گا، ان سب مسائل کے حل کے لئے زید اور بکر دونوں دارالافتاء آئیں بعد از تفتیش شرعی فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: Lar-6088
تاریخ اجراء: 01 ربیع الاول 1438ھ / 01 دسمبر 2016ء