مسجد کا پرانا قالین مدرسے میں دینے کا حکم

مسجد کا غیر استعمالی قالین مدرسے میں دینا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مسجد میں کمیٹی نے چندہ جمع کر کے نیا قالین بچھوا دیا ہے، جبکہ پہلے والا قالین مسجد کے اسٹور میں رکھا ہوا ہے اور مسجد کو اس کی حاجت نہیں، اور اسی طرح پڑے رہنے سے اس کے ضائع ہونے کااندیشہ ہو تو کیا یہ قالین اسی علاقے میں بچیوں کے مدرسے کو دیا جا سکتا ہے، جس کو اس کی حاجت بھی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر مسجد کو حاجت نہیں اور آئندہ کے لیے محفوظ رکھنے میں اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو تو اس قالین کو مسجد کی انتظامیہ فروخت کر کے اس کی قیمت کو مسجد کی ضروریات میں صرف کر سکتی ہے اور مدرسے کی انتظامیہ کو اگر اس کی حاجت ہو، تو وہ مسجد کو اس کی قیمت ادا کر کے مدرسے میں استعمال کر سکتے ہیں، بغیر قیمت کے مدرسے میں نہیں دے سکتے۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ: "مسجد کی کوئی چیز مسجد کے کام سے فاضل ہو اور وہ چیز اس مسجد کے کام میں آنے کی نہیں ہے اور وہ چیز ایسی ہے کہ کثر مدت تک بے کار رہنے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں وہ چیز بیع کرنا جائز ہے یا نہیں؟"

اس پر آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”جب وہ چیز بے کار ہے اور اندیشہ نقصان ہے تو فروخت کر کے قیمت مسجد میں صرف کریں،۔۔ بحر الرائق میں ہے

”و اما الحصر والقناديل فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود الى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر او يبيعه قيم المسجد للمسجد“

یعنی چٹائیاں اور قندیلیں اگر مسجد کے لئے بیکار ہو جائیں تو امام ابویوسف رحمہ اللہ علیہ کا صیح مذہب یہ ہے کہ وہ دینے والے کی ملک کی طرف نہیں لوٹیں گی بلکہ کسی دوسری مسجد کو دے دی جائیں یا متولی مسجد انھیں مسجد کے کام میں صرف کرے۔" (فتاوی امجدیہ، ج 3، ص 110، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3874

تاریخ اجراء: 30 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 28 مئی 2025 ء