مسجد کے واش روم کرائے یا ٹھیکے پر دینا کیسا؟

مسجد کے واش روم کرائے یا ٹھیکے پر دینا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0496

تاریخ اجراء:20 رجب المرجب 1446ھ/ 21 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ ہماری مسجد میں تین بیت الخلاء (واش رومز) ہیں، مسجد کےقریب میں مارکیٹ ہونے کی وجہ سے یہ بہت کثرت  سے استعمال ہوتے ہیں، اب اہل محلہ اور کمیٹی کے افراد نے باہمی مشورہ سے طے کیا ہے کہ ہم ایک خاک روب (Sweeper) کو یہ واشرومز ٹھیکے پر دے دیتے ہیں، یہ Sweeper جماعت کے اوقات کے علاوہ  واشرومز استعمال کرنےوالوں سے بیس روپے وصول کرے گا، یہ ساری آمدنی  Sweeper کی ہوگی اور وہ اس ٹھیکے کے بدلے مسجدکو ہر مہینے 3000 روپے کی فکس رقم بطور ٹھیکہ اداکرے گا۔

   اسی طرح کاسلسلہ ہمارے علاقےمیں موجوداہل سنت کی تین مساجدمیں چل رہاہے، ابھی تک ہماری مسجدمیں ایسا سلسلہ  شروع نہیں ہوا، ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام شروع کرنے سے پہلے شرعی رہنمائی لے لیں، کیا مذکورہ طریقہ کارکے مطابق  مسجد کے  واش رومز کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسجد کے بیت الخلاء (واش رومز)ٹھیکےیا کرایہ  پر نہیں دیےجا سکتے، چاہے یہ صورت ہو کہ کسی خاص فرد کو ٹھیکے پر دیے جائیں اور وہ مسجد کو ماہانہ مخصوص رقم ادا کرے، یا انتظامیہ خود براہِ راست مسجد کے واش رومز استعمال کرنے والوں سے کرایہ وصول کرے، دونوں صورتوں میں   مسجد کے ایک حصے  کو کرایہ  پر دینا موجود ہے، اور شرعی طور پر مسجد کے کسی حصے کوکرایہ  پر دینا ناجائزو حرام ہے۔

   مجمع الانھر، بحر الرائق، نہر الفائق اور در مختار میں مسجد کے کسی بھی حصے کو کرایہ پر دینے کو ناجائز قرار دیا  حتی کہ اجرت دے کر  مسجد کی دیوارپر کڑیاں رکھنے تک کو فقہاء نےاس کو  عدمِ جواز میں شامل کیا، چنانچہ در مختار میں ہے: ”فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، و لا يجوز أخذ الأجرة منه و لا أن يجعل شيئا منه مستغلا و لا سكنى بزازية“ ترجمہ: اس بنا کا ہدم کرنا واجب ہے  اگر چہ مسجد کی دیوار پر ہو، اور اس کی اجرت لینا اور اس کے کسی حصے کو کرایہ یا رہائش کی جگہ بنانا جائز نہیں، بزازیہ۔ 

   (و لو على جدار المسجد) کے تحت رد المحتار میں ہے: ”مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا:۔ ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه:۔ قلت: و به علم حكم ما يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لا يحل ولو دفع الأجرة“ ترجمہ: حالانکہ اس نے مسجد  کی فضا کا کوئی حصہ نہیں گھیرا :۔ ط اور بحر میں اس سے قبل نقل کیا کہ  کڑیاں مسجد کی دیوار پر نہیں رکھ سکتے اگر چہ  مسجد کے اوقاف کی کڑیاں ہوں:۔ میں کہتا ہوں:اسی سے مسجد کے پڑوس میں رہنے والوں کا مسجد کی دیوار پر اپنی کڑیاں  رکھنے کا حکم معلوم ہو گیا کہ یہ جائز نہیں اگر چہ اجرت دیں۔

   (و لا أن يجعل إلخ)کےتحت ہے: ”هذا ابتداء عبارة البزازية،و المراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته“ ترجمہ: یہ بزازیہ کی عبارات کی ابتدا ہے، اور مستغل سے مراد یہ ہے کہ مسجد کا کوئی حصہ کرایہ پر دیاجائے تاکہ مسجد کی تعمیر( میں مدد حاصل)ہو۔(الدر المختار و رد المحتار، ج 4، ص 358، دار الفکر)

   علامہ سید طحطاوی (مستغلاً) کے تحت لکھتے ہیں: ”و لو لیصرف علی المسجد، و ان احتاج ذلک، و ان احتاج الی العمارۃ و لا شیء لہ۔۔۔ و من قال بتسویغ اجارۃ بعض المساجد لحاجتہ فھو غیر صحیح أفادہ صاحب البحر“ ترجمہ: اگر چہ مسجد پر خرچ کرنے کے لیے  ہی اجارہ پر دیا جائے، اگرچہ مسجد کو حاجت ہو، اگرچہ مسجد کی تعمیر کی حاجت ہواور تعمیر پر خرچ کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو۔۔۔ جس نے مسجد کی حاجت کی وجہ سے بعض حصے کو اجارے پر دینے کے جواز کا قول کیا اس کا  قول درست نہیں، صاحب البحر نے اس کا افادہ کیا ہے۔(طحطاوی علی الدر المختار، ج 6، ص 621، دار الکتب العلمیۃ)

   بہار شریعت میں ہے: ” مسجد کا کوئی حصّہ  کرایہ پر دینا کہ اسکی آمدنی مسجد پرصَرف ہوگی حرام ہے اگرچہ مسجد کو ضرورت بھی ہو۔(بہار شریعت، حصہ 10، ص 560، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اصل یہ ہے کہ مسجد کا کوئی حصہ تو ایک طرف اس کی کوئی شے بھی کرایہ پر نہیں دے سکتے  الا یہ کہ واقف نے کرایہ پر دینے کے لیے  ہی اس  شے کووقف کیا ہو، ہاں  ضرورت کے وقت اسباب ِمسجد کو کرایہ پر دینا  ایک مستثنیٰ صورت ہے۔اما م اہل سنت فرماتے ہیں:”کرایہ پر دینے کے لئے وقف ہوں تو متولی دے سکتا ہے مگر وہ جو مسجد پر اس کے استعمال میں آنے کےلئے وقف ہیں انہیں کرایہ  پر دینا لینا حرام کہ جو چیز جس غرض کےلئے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف اسے پھیرنا ناجائزہے اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے لئے فائدہ کی ہو کہ شرط واقف مثل نص شارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واجب الاتباع ہے۔۔۔خلاصہ میں تحریر فرمایا کہ جو گھوڑا قتال مخالفین کےلئے وقف ہوا ہو ا سے کرایہ پر چلانا ممنوع وناجائز ہے،ہاں اگر مسجد کو حاجت ہو مثلًا مرمت کی ضرورت ہے اور روپیہ نہیں تو بمجبوری اس کا مال اسباب اتنے دنوں  کرایہ  پر دے سکتے ہیں جس میں وہ ضرورت رفع ہوجائے،جب ضرورت نہ رہے پھرناجائز ہوجائے گا۔“(فتاوی رضویہ، ج 16، ص 453، رضا فاؤنڈیشن)

   اسعاف میں ہے:”ولو أراد قيم المسجد أن يبني حوانيت في حرم المسجد وفنائه قال الفقيه أبو الليث لايجوز له أن يجعل شيئا من المسجد سكنا ومستغلا ترجمہ:اگر مسجد کامتولی مسجد کی حدود  یافنا  میں دکانیں بنانا چاہے، فقیہ ابو لیث فرماتے ہیں: متولی کےلیے جا ئز نہیں کہ وہ مسجد کے کسی حصے کو رہائش گاہ بنائے  یا کرایہ پر دے۔(الإسعاف فى أحكام الأوقاف، ص 74، مطبوعہ ازبکیۃ)

   اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاء کے قول ”لا یجعل شيئا من المسجد سكنا ومستغلا“ میں ”المسجد“ اپنے عموم پر ہے جوعین و فنا دونوں حصوں کو شامل ہے، اسی لیے اسعاف میں فنائے مسجد میں دکانیں بنانے کی حرمت پر  اس عبارت  سے استدلال کیا۔

   وقار الفتاوی میں ہے: ”الاستفتاء: مسجد کا استنجاء خانہ ہے، جس میں جمعدار رکھا گیا ہے جو کہ استنجاء خانہ کی صفائی ستھرائی رکھتا ہے۔ لیکن مسجد کی انتظامیہ اس  کو تنخواہ نہی دیتی ۔ بلکہ جمعدار خود ہی لوگوں سے  پیسے وصول کرلیتا ہے۔ یعنی جو بھی بیت الخلاء میں جاتا ہے اس سے ایک روپیہ وصول کرتا ہے۔ لیکن جمعدار پانی اور بجلی مسجد کی استعمال کرتاہے۔ تو اس صورت میں مسجد کی انتظامیہ اس جمعدار سے پانی اور بجلی کا پیسہ وصول کرسکتی ہے یا نہیں ؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

   الجواب:وقف کے مال سے ضروریات مسجد کےلیے جو استنجاء خانہ بنائے جائیں ان میں نمازیوں سے روپیہ لینا جائز نہیں۔ اس لیے جمعدار تنخواہ پر رکھا جائے اور جب بجلی پانی بھی مسجد کا خرچ کیا جاتا ہے تو خاص طور پر جمعدار کو بلا تنخواہ رکھنا اور نمازیوں سے پیسے وصول کرنا اور بھی زیادہ برا ہے۔“(وقار الفتاوی، ج 2، ص 335، بزم وقار الدین)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم