
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-554
تاریخ اجراء:23 ربيع الاول1446ھ/30 ستمبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مساجد میں عام طور پر پلاسٹک کی ٹوپیاں رکھی جاتی ہیں،تو وہ ٹوپیاں کچھ عرصے بعد ٹوٹ جاتی ہیں،ایسی صورت میں کیا ان ٹوٹی ہوئی ٹوپیوں کو پلاسٹک میں بیچ کر اِن سے حاصل ہونے والی رقم کو مسجد کے ہی دوسرے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مساجد میں رکھی جانے والی پلاسٹک کی ٹوپیاں اگرتو مسجد کے پیسوں سے ہی خریدی گئی ہوں تو اُسے بیچ کر اس کی رقم کو مسجد کے دوسرے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ ٹوپیاں کسی شخص نے مسجد میں دی ہوں، تو اس صورت میں وہ ٹوپیاں دینے والے کی ملکیت میں لوٹ آئیں گی، اگر وہ زندہ ہو تو وہ ٹوپیاں اُسے واپس کردی جائیں، وہ جو چاہے کرے، اور اگر وہ زندہ نہ رہاہو ، تو اس کے ورثاء کو دیدی جائیں، ہاں اگر وہ شخص یا اُس کے ورثاء اُن ٹوپیوں کو بیچنے اور اس کی رقم کو مسجد کے کسی کام میں صَرف کرنے کی اجازت دیدیں، تو پھراُن کی اجازت سے ٹوپیاں بیچ کراس کی رقم مسجد کے کاموں میں صرف کی جاسکتی ہے، اسی طرح اگر یہ معلوم ہو کہ ٹوپیاں کسی شخص نے ہی مسجد میں دی ہیں، مگر دینے والا شخص کون تھا، یہ معلوم نہیں، یا معلوم تو ہو مگروہ انتقال کرچکا ہو اور کوئی وارث بھی نہ چھوڑا ہو، تواِن صورتوں میں دیانت دار انتظامیہ اُن ٹوپیوں کو بیچ کر اُس کی رقم کو مسجدکے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر ٹوپیاں مسجد کے پیسوں سے لی گئی ہوں تو اسے بیچ سکتے ہیں، اگر کسی نے دی ہوں تو اس کی ملک کی طرف لوٹ جائیں گی، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’(مسجد کا) فرش جو خراب ہوجائے کہ مسجد کے کام نہ رہے، جس نے وہ فرش مسجد کو دیا تھا وہ اس کا مالک ہوجائے گا،اور اگر مسجد ہی کے مال سے تھا تو متولی بیچ کر مسجد کے جس کام میں چاہے لگادے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 406، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسجد کا اسباب جیسے بوریا، مصلی، فرش، قندیل، وہ گھاس کہ گرمی کے لئے جاڑوں میں بچھائی جاتی ہے وغیر ذٰلک۔۔۔ اگر خراب وبیکار ہوگئی یا معاذاﷲ بوجہ ویرانی مسجد ان کی حاجت نہ رہی، تو اگر مال مسجد سے ہیں تو متولی، اور متولی نہ ہو تو اہل محلہ متدین امین باذن قاضی بیچ سکتے ہیں، اور اگر کسی شخص نے اپنے مال سے مسجد کو دئے تھے تو مذہب مفتی بہ پر اس کی ملک کی طرف عود کرے گی جو وہ چاہے کرے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 265، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
اگر ٹوپیاں دینے والے شخص زندہ نہ ہو اور اس کا کوئی وارث بھی نہ ہو،تو اس صورت حال میں قاضی کی اجازت سے اس کو بیچا جاسکتا ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’و ذكر أبو الليث في نوازله حصير المسجد إذا صار خلقا واستغنى أهل المسجد عنه وقد طرحه إنسان إن كان الطارح حيا فهو له وإن كان ميتا ولم يدع له وارثا أرجو أن لا بأس بأن يدفع أهل المسجد إلى فقير أو ينتفعوا به في شراء حصير آخر للمسجد والمختار أنه لا يجوز لهم أن يفعلوا ذلك بغير أمر القاضي، كذا في محيط السرخسي‘‘ ترجمہ: اور ابو اللیث نے اپنی نوازل میں ذکر کیا کہ مسجد کی چٹائی جب بوسیدہ ہوجائے اور اہل مسجد کو اس کی حاجت نہ رہے تو اگر وہ کسی شخص نے مسجد میں دی ہو، تو اگر وہ دینے والا شخص زندہ ہو،تو اسی کی ہوں گی، اور اگر اس کا انتقال ہوگیا ہو اور اس نے کوئی وارث نہ چھوڑ ا ہو تو میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ اہل مسجد وہ چٹائی کسی فقیر کو دیدیں یا اس سے مسجد کیلئے دوسری چٹائی خرید لیں اور مختار یہ ہے کہ ان کیلئے قاضی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں ہے، یونہی محیط سرخسی میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 2، الباب الحادي عشر في المسجد، صفحہ 458، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
یونہی اگر اس شخص کا علم نہ ہو، تو قاضی کی اجازت سے اُسے بیچنا جائز ہے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے: ’’و لو أن أهل المسجد باعوا حشيش المسجد أو جنازة أو نعشا صار خلقا و من فعل ذلك غائب اختلفوا فيه قال بعضهم يجوز و الأولى أن يكون بإذن القاضي و قال بعضهم لا يجوز إلا بإذن القاضي و هو الصحيح‘‘ ترجمہ: اور اگر اہل مسجد، مسجد کی گھاس یا جنازے کی چارپائی جو کہ بیکار ہوگئی ہو، اسے بیچ دیں، جبکہ یہ چیزں مسجد کو دینے والا غائب ہو، تو اس میں اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ اس کو بیچنا جائز ہے، اور اولی یہ ہے کہ قاضی کی اجازت سے ہو، اور بعض نے کہا کہ قاضی کی اجازت سے ہی بیچنا جائز ہے، اور یہی صحیح ہے۔(بحر الرائق، جلد 5، صفحہ 273، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
فی زمانہ قاضی نہیں، لہذا عام مسلمانوں کا فیصلہ قاضی کے قائم مقام ہے، چنانچہ مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی فیض الرسول میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’جہاں قاضی شرع نہ ہو تو اس ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم جو مرجع فتوی ہو اُس (قاضی شرع) کے قائم مقام ہے ھکذا فی الحدیقۃ الندیۃ(اسی طرح حدیقہ ندیہ میں ہے) اور اگر ضلع میں ایسا عالم بھی نہ ہو تو عام مسلمانوں کا فیصلہ حکمِ قاضی کے قائم مقام ہے ھکذا قال الامام احمد رضا البریلوی رضی عنہ ربہ القوی(اسی طرح امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا)۔‘‘(فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 472، شبیر برادرز، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم