
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9159
تاریخ اجراء:06 جمادی الاولیٰ1446ھ/09نومبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ مسجد ومدرسہ زیر تعمیرہیں، جن کے منتظمین سنی صحیح العقیدہ لوگ ہیں، تو مسجد و مدرسہ کے لیے مشترکہ چندہ کرنا ہے، جس میں مسجد و مدرسہ کے باہر کچھ باکس لگائے جائیں گےاور مخیر حضرات سے چندہ جمع کیا جائے گا، تو کیا دونوں کے لیے مشترکہ چندہ کیاجاسکتا ہے؟ اگرکیا جاسکتا ہے، تو کس میں کتنا کتنا لگایا جائے گا اور کیا احتیاطیں کی جائیں گی، شرعی رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کی روشنی میں مسجد و مدرسہ دونوں کے لیے اکھٹا چندہ کرنا،جائز ہےاور کس جگہ پر کتنا خرچ کرنا ہے، یہ انتظامیہ کی صوابدید پر منحصر ہےکہ جس میں جتنی حاجت ہو،انتظامیہ اس میں شرعی تقاضوں کے مطابق اتنی رقم خرچ کرے،تاہم اگر کسی نے خاص مسجد پر خرچ کرنے کےلیے چندہ دیا،تووہ مدرسہ اوردیگر نیک کاموں پر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔
یادرہے!صدقاتِ واجبہ،مثلاً:زکوٰۃ،صدقہ فطر،وغیرہ کی رقم شرعی حیلہ کے بغیر مسجد و مدرسہ کی تعمیر اوردیگر انتظامات میں استعمال نہیں کر سکتے، لہٰذا جس سے چندہ لیں، اُس سے یہ وضاحت لیں کہ یہ رقم صدقاتِ واجبہ کی ہے یا نافلہ کی؟ نیزنفلی چندے کے بارے میں یہ بھی کہیں کہ”یہ رقم ہمیں مسجد و مدرسہ کی تعمیرات اور مسجد و مدرسہ کے عمومی اخراجات(امام مسجد کی تنخواہ،بجلی، گیس کےبلزاور صفائی،ستھرائی وغیرہ) میں خرچ کرنے کی اجازت کے ساتھ دے دیں۔“ یونہی بکس پر بھی نمایاں انداز میں یہ لکھاجائے کہ”یہ رقم مسجد و مدرسہ دونوں کی تعمیرات اور ان کے عمومی اخراجات میں خرچ کی جائےگی۔“ اور یہ بھی لکھا جائےکہ اس میں زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم نہ ڈالی جائے، بلکہ الگ سے جمع کروا دی جائے۔
مسجد و مدرسہ کے لیے مشترکہ طورپر کوئی چیز وقف کرنے کے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”جبکہ صورت واقعہ یہ ہے اور ان دکانوں کا وقفِ مسجد ہونا ثابت نہیں،بلکہ ملک(میراث زید ہونا ثابت ہے تو عمرو بکر،کہ(یہ دونوں زید کے) وارثِ شرعی سے بروجہِ شرعی مشتری ہوئے،اگروہ مسجد ومدرسہ دینیہ اسلام کے نام اِنہیں (دکانوں کو)وقف کریں گےجس میں تعلیمِ دینِ متین مطابقِ مذہبِ اہلِ سنت وجماعت ہو اور اس کے مدرسین واراکین۔۔۔ وغیرہم ضالین (گمراہ)نہ ہوں) تو ان کے لئے اجرعظیم وصدقہ جاریہ ہے،سالہا سال گزر گئے ہوں،قبر میں ان کی ہڈیاں بھی نہ رہی ہوں ،اُن کو بعونہٖ تابقائے مسجد و مدرسہ وجائداد برابر ثواب پہنچتارہے گا۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد16، صفحہ116، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مذکورہ بالاجزئیہ سے مقصود یہ ہےکہ مسجد ومدرسہ کے انتظام و انصرام کے لیے مشترکہ طور پر کوئی چیز وقف کی جاسکتی ہے اور جیسے مشترکہ وقف درست ہے،یونہی ان کے لیے مشترکہ چندہ کرنا بھی درست ہے،جیساکہ علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1434ھ / 2012ء) لکھتے ہیں:”جو امر خیر علیحدہ کیے جا سکتے ہیں ان کو ایک ساتھ جمع کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں،پس جب مسجد اور مدرسہ کے چندہ کے لیے علیحدہ علیحدہ رسید چھپوائی جاسکتی اور چندہ کیا جا سکتا ہے،تو اسی کام کو یکجا کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔کتب فقہ میں ہزاروں ایسے اوقاف کا ذکر آتا ہے کہ ایک ہی جائداد مدرسہ اور مسجد اور مساکین سب پر وقف ہو سکتی ہے،یہاں بھی یہ ہی صورت ہے کہ ایک رقم سے سارے مصارف ادا کر سکتے ہیں،ہاں چندہ وُصول کرنے والے کو یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ رسید میں تفصیل لکھے کہ چندہ زکوۃ و خیرات ہے یا عطیہ ہے؟یا جو شخص صرف مسجد ہی کو دینا چاہے، تو اس کی تشریح ہو،تا کہ ایسی رقم اور عطیہ مسجد میں صَرف کیا جائے ، زکوۃ مسجد میں نہیں لگ سکتی۔“(فتاوی بحر العلوم ، جلد5، صفحہ105، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
مسجدو مدرسہ کے لیے اکٹھا چندہ کیا، تو وہ دونوں میں خرچ ہو سکتا ہے اور کس پر کتنا خرچ کرنا ہے،یہ انتظامیہ کی رائے اور صوابدید پر ہو گا، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1367ھ /1947ء) لکھتے ہیں: ”جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دار ومدار ہے، تو دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائداد وقف کرے، اسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جا سکتی ہے۔ دوسرے میں صَرف کرنا، جائزنہیں، مثلاً:اگر مدرسہ کے لیے ہو،تو مدرسہ پر صَرف کی جائے اور مسجد کے لئے ہو، تو مسجد پر اور قبرستان کی حد بندی کے لئے ہو، تو اس پر اور اگردینے والے نے اس کا صَرف کرنا متولیوں کی رائے پر رکھا ہو، تو یہ اپنی رائے سے جس میں مناسب سمجھیں صَرف کر سکتے ہیں، قبر کھودنے کی اجرت جو کچھ لی جاتی ہے۔ چونکہ اس اجرت لینے کا تعلق خاص متولیوں سے ہے۔ گورکنوں کے دینے کے بعد جو کچھ بچے یہ اپنی رائے سے صَرف کر سکتے ہیں۔ یاجو چیزیں فروخت کی جاتی ہیں، ان میں جو کچھ نفع ہو وہ بھی اور موٹر لاری کا کرایہ یہ سب متولیوں کی رائے پر ہے کہ وہی اس آمدنی کو حاصل کرنے والےہیں۔ اپنی رائے سے جس میں چاہیں صَرف کر سکتے ہیں، جبکہ موٹر لاری دینے والے نے اس کو یوں دیا ہو کہ اس آمدنی کے خرچ کرنے کی کوئی جہت مخصوص نہ کی ہو، بلکہ متولیان کی رائے پر چھوڑا ہو کہ وہ مسجد یا مدرسہ یا قبرستان جس پر چاہیں صَرف کریں۔“(فتاویٰ امجدیہ، جلد3،صفحہ42،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
مشورہ:چندے کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے امیر اَہل ِ سُنَّتْ مولانا محمد الیاس عطارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَہْ کی کتاب”چندے کے بارےمیں سوال جواب“کا مطالعہ مفید رہےگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
چندے کی رقم سے قبرستان کے لیے جگہ خریدنا کیسا؟
مسجد کے فنڈ سے کمیٹی ڈالنا کیسا؟
مسجد کے لیے قرض لینے کے احکام
امام وموذن کو ماہانہ یا سالانہ کتنی چھٹیاں کرنے کی اجازت ہے؟
کیا عین مسجد میں سیڑھی بنائی جاسکتی ہے؟
مدرسے کاچندہ ذاتی استعمال میں لانے کاحکم
جو مسجد چھوٹی پڑچکی ہو کیا اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ خرید سکتے ہیں؟
مدرسے کے لئے پلاٹ دینے کے بعد کیا واپس لے سکتے ہیں؟