
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3666
تاریخ اجراء:28رمضان المبارک 1446ھ/29مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی رشتہ دار کا ماہانہ رینٹ زکوۃ کی نیت سے مالک مکان کو دیں تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی ؟ ترکیب یہ ہے کہ گھر کے افراد ایک شخص کو زکوۃ جمع کرادیتے ہیں اور وہ ڈائریکٹ ہی مذکورہ رشتہ دار کا رینٹ آن لائن مالک مکان کو ادا کردیتا ہے یعنی رشتہ دار کے ہاتھ میں زکوۃ کی رقم نہیں دیتا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ رشتہ دار سے غالب گمان ہے کہ وہ زکوۃ کی رقم کہیں اور خرچ کردے گا اور رینٹ کی رقم اس کے پاس نہیں بچے گی اور اگر کرایہ نہیں ادا کرے گا تو مالک مکان اسے گھر سے نکا ل دے گا ،تو شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کیا یوں زکوۃ اد اہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگرآپ کایہ رشتہ دارزکوۃ لینے کامستحق ہو(یعنی شرعی فقیرہواورہاشمی یاسیدنہ ہو)اورآپ اس کی اجازت سے زکوۃ کی رقم سے ڈائریکٹ (یعنی اس کوقبضہ دئیے بغیر)اس کاکرایہ اداکریں تواس طرح زکوۃ اداہوجائے گی اور اگر بغیر اجازت اداکریں توزکوۃ ادانہیں ہوگی،کیونکہ زکوٰۃ کا رکن ہے فقیرِ شرعی کو مالک بنانا اورمالک بنانے کے لیے خود فقیر شرعی یااس کے نائب کااس مال پرقبضہ کرناضروری ہے،اب جس صورت میں اس کی اجازت سے اس کاکرایہ ادا کیا جائے گاتواس صورت میں مالک مکان اس رشتہ دارکانائب ہوگااوراس کے قبضہ کرنے سے رشتہ دارکاقبضہ ہوجائے گاجبکہ بغیراجازت ،ڈائریکٹ کرایہ اداکرنے کی صورت میں مالک مکان اس رشتہ دارکانائب نہیں بنے گاتوکسی طور پربھی اس کاقبضہ ثابت نہیں ہوگا،لہذازکوۃ بھی ادانہیں ہوگی ۔
زکوٰۃ کا رکن فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ہے ، جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے : ” و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء الزکاۃ لقولہ عز وجل ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾و الایتاء ھو التملیک “ ترجمہ : اللہ تعالی نے مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے ،چنانچہ فرمانِ باری عزوجل ہے : ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ ( یعنی زکوٰۃ دو ) اور ایتاء یعنی دینے کا مطلب ہی مالک کر دینا ہوتا ہے ۔(بدائع الصنائع ، کتاب الزکاۃ ، فصل رکن الزکاۃ ، ج 2 ، ص 39،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:” زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر ( یعنی فقیر کو مالک بنانا ) ہے ۔ جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو ، کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِ مسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین ، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی ۔(فتاوی رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
شرعی فقیر مقروض کی طرف سے قرض خواہ قبضہ کر لے تو زکوٰۃ ادا ہوجانے سے متعلق بحر الرائق میں ہے ’’ لو قضى دين الحي ۔۔۔ إن قضاه بأمره جاز، ويكون القابض كالوكيل له في قبض الصدقة كذا في غاية البيان وقيده في النهاية بأن يكون المديون فقيرا "ترجمہ : زندہ شخص کی اجازت سے اگر ( کسی نے مالِ زکوٰۃ سے ) اس کا قرض ادا کر دیا ، تو جائز ہے ( یعنی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ) اور قبضہ کرنے والا ( قرض خواہ ) مقروض کی طرف سے صدقہ میں قبضہ کے وکیل کی طرح ہوگا ۔ جیسا کہ غایۃ البیان میں ہے ۔ نہایہ میں اس چیز کی قید لگائی ہے کہ مقروض فقیرِ شرعی ہو ۔(البحر الرائق ، کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ، جلد 2 ، صفحہ 261 ، دار الكتاب الإسلامي)
در مختار میں ہے : ’’ دین الحي الفقير فيجوز لو بأمره ‘‘ ترجمہ : زندہ فقیرِ شرعی کی اجازت سے اس کا دَین ادا کر دیا تو جائز ہے ۔
رد المحتار میں ہے:”( فیجوز لو بامرہ)ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا لنفسہ “ترجمہ:( اس کی اجازت سے ادا کرنا جائزہے ) یعنی زکوۃ کے طور پر جائز ہوجائے گا اس بناء پر کہ اس ( زکوٰۃ دینے والے) کی طرف سے مالک بنانا پایا گیا اور قرض خواہ نیابت کے طور پر مقروض کی طرف سے قبضہ کرے گا، پھر ( گویا کہ ) یہ مقروض کا اپنا قبضہ کرنا ہی شمار ہو گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ342، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم