
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: JTL-1035
تاریخ اجراء: 14رمضان المبارک 1445 ھ/25مارچ 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ زید بیرون ملک کا مقیم ہے اور عارضی طور پر پاکستان آیا ہے، اس کا تجارتی مال ،سونا اور نقدی بیرون ملک ہے۔اگر قیمت کی صورت میں زکوۃ ادا کرنا چاہے، تو مال تجارت اور سونےکی پاکستانی قیمت لی جائے گی یا جس ملک میں اس کا مال موجود ہے ؟رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوٰۃ کی شرائط پائی جانے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی کے حوالے سے شرعی اصول یہ ہے کہ جس جگہ پر مال موجود ہو، اسی جگہ کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے زکوۃ ادا کی جائے گی، لہٰذا زید کا مال جب بیرون ملک ہے ، تو وہ اسی جگہ کی قیمت کے اعتبار سے زکوۃ ادا کرے گا، البتہ اگر چاہے تو اتنی مالیت کی پاکستانی کرنسی بھی زکوۃ میں ادا کرسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ويقومها المالك فی البلد الذی فيه المال حتى لو بعث عبدا للتجارة إلى بلد آخر فحال الحول تعتبر قيمته فی ذلك البلد‘‘ترجمہ: مالِ تجارت کا مالک،مال تجارت کی قیمت اس شہرکے اعتبارسے لگائے گا، جس شہر میں مال موجود ہو،یہاں تک کہ اس نے غلام کو تجارت کے لیے دوسرے شہر بھیجا اور مال نصاب پر سال پورا ہوا، تو اسی شہر کے اعتبار سے اس کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔(فتاوی ھندیہ،کتاب الزکوٰۃ،مسائل شتی فی الزکوٰۃ،ج 1،ص 180،دار الفکر، بیروت )
متن تنویر وشرح درمیں ہے :’’(وجاز دفع القيمة فی زكاة) وتعتبر القيمة يوم الوجوب ،….ويقوم فی البلد الذی المال فيه ولو فی مفازة ففی أقرب الأمصار إليه‘‘ترجمہ:زکوۃ میں قیمت ادا کرنا بھی جائز ہے اور قیمت اس دن کی لی جائے گی ،جس دن زکوۃ واجب ہوئی،اور جس شہر میں مال موجود ہے اس کے اعتبار سے قیمت لگائی جائے گی اور اگر جنگل میں ہو تو جو شہر اس کے قریب ہے اس کے اعتبار سے قیمت لگائی جائے گی۔(تنویر الابصار والدرالمختار،کتاب الزکوۃ، جلد2،صفحہ286،دارالفکر،بیروت)
بہار شریعت میں ہے:’’قیمت اس جگہ کی ہونی چاہیے جہاں مال ہے اور اگر مال جنگل میں ہو، تو اس کے قریب جو آبادی ہے وہاں جو قیمت ہو اس کا اعتبار ہے ۔‘‘(بھار شریعت،جلد01،صفحہ908،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اشکال:
صدقہ فطر کے باب میں تویہی کہا جاتا ہے کہ جس پر واجب ہے ، وہ جہاں پر موجود ہے، اسی جگہ کے اعتبارسے صدقہ واجب ہوگا ،اگر چہ اس کا مال وہاں نہ ہو، جبکہ زکوۃ میں آپ نے اس کے برخلاف جہاں مال ہے وہاں کا اعتبار کرنےکا حکم بیان کیا ،اس اختلاف کا سبب کیا ہے ؟
جواب:
صدقہ فطر اور زکوۃ کے اس حکم میں فرق کا سبب یہ ہے کہ زکوۃ واجب ہونے کا سبب اور محل مال ہے،ادا کرنے والا شخص نہیں ،یہی وجہ ہے کہ مال کے ہلاک ہونے کے سبب زکوۃ بھی ساقط ہوجاتی ہے،جبکہ صدقہ فطر کا تعلق ادا کرنے والے کے ذمہ کے ساتھ ہوتاہے، اس کے مال کے ساتھ نہیں ،یہی وجہ ہے کہ صدقہ فطر واجب ہونے کے بعد اگر مال باقی نہ رہے ،تو بھی یہ ساقط نہیں ہوتا، لہذاجب صدقہ فطر کا تعلق ادا کرنے والے کے ذمہ کے ساتھ ہے، تو اس میں اعتبار بھی ادا کرنے والےکے مقام کا ہوگا اور زکوۃ چونکہ مال سے متعلق ہے، اس لیے اس میں اعتبار بھی مقام مال کا ہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے :’’صدقة الفطر تتعلق بذمة المؤدی لا بماله بدليل أنه لو هلك ماله لا تسقط الصدقة،وأما زكاة المال فإنها تتعلق بالمال.ألا ترى أنه لو هلك النصاب تسقط،فإذا تعلقت الصدقة بذمة المؤدي اعتبر مكان المؤدي ولما تعلقت الزكاة بالمال اعتبر مكان المال ‘‘ترجمہ:صدقہ فطر ادا کرنے والے کے ذمہ کے ساتھ متعلق ہوتا ہے نہ کہ اس کے مال کے ساتھ ،اور اس پر دلیل یہ ہے اگر مال ہلاک بھی ہوجائے، تو یہ صدقہ ساقط نہیں ہوتا ،جبکہ مال کی زکوۃ ، تو یہ مال سے متعلق ہوتی ہے،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر نصاب زکوۃ ہلاک ہوجائے ،تو زکوۃ بھی ساقط ہوجاتی ہے،توجب صدقہ ادا کرنے والے کے ذمہ کے ساتھ متعلق ہے ،تو اس میں اعتبار بھی ادا کرنے والے کے مقام کا ہوگا اور زکوۃ چونکہ مال سے متعلق ہے ،اس لیے اس میں اعتبار بھی مقام مال کا ہوگا۔(بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ75،کتاب الزکوۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے:’’ثم المعتبر فی الزكاة مكان المال وفی صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده فی الصحيح والفرق أن الزكاة محلها المال ولهذا تسقط بهلاكه وصدقة الفطر فی الذمة ولهذا لا تسقط بهلاكهم ‘‘ ترجمہ : زکوۃ میں اعتبار اس مقام کا ہے،جہاں مال ہے اور صدقہ فطر میں اعتبار اس مقام کا ہے جہاں وہ شخص خود موجود ہے ،جہاں اس کی نابالغ اولاد اور غلام ہیں، اس جگہ کا اعتبار نہیں ، صحیح قول کے مطابق۔اور دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ زکوۃ کا محل مال ہے، یہی وجہ ہے کہ مال کے ہلاک ہونے کے سبب زکوۃ بھی ساقط ہوجاتی ہےاور صدقہ فطر ذمہ پر لازم ہوتا ہے،اسی لیے افراد کے مرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔(تبیین الحقائق،کتاب الزکوۃ،باب المصرف،جلد1،صفحہ305،المطبعۃ الکبری ،القاھرۃ)
خزانۃ المفتین میں ہے:’’إذا كان المالُ فی موضعٍ آخر، والمالك فی موضعٍ آخر، فالمعتبرُ مكانُ المال، ؛ لأنّ سببَ الوجوبِ المالُ‘‘ترجمہ:اگر مال اور صاحب مال دونوں الگ الگ مقامات پر ہوں، تو اعتبار اس مقام کا ہے جہاں مال ہو،کیونکہ زکوۃ کے وجوب کا سبب مال ہے ۔(خزانۃ المفتین،کتاب الزکوۃ ،فصل فی مصارف الزکوۃ، صفحہ944،مطبوعہ سعودیہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم