
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3561
تاریخ اجراء:13شعبان المعظم1446ھ/12فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا زکوۃ کے پیسوں سے نلکا کھدوا سکتے ہیں، جہاں غریب مسلمانوں کو پانی کی ضرورت ہو؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زکوٰۃ وغیرہ صدقۂ واجبہ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ غیر ہاشمی شرعی فقیر (جس کو زکوٰۃ لینا، جائز ہو، اس) کو اس پر قبضہ دے کر اس کا مالک کر دیا جائے، اگر اس کے بغیر ہی کسی دوسرے نیک کام میں رقم خرچ کر دی، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔ لہٰذا زکوۃ کے پیسوں سے نلکا کھدوانے کے لیے بھی پہلے کسی غیر ہاشمی، عاقل، بالغ شرعی فقیر کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بناتے ہوئے اس رقم پر قبضہ دے دیا جائے، جب وہ قبضہ کر لے، تو اِس کے بعد وہ یہ رقم اپنی مرضی و اجازت سے کسی بھی نیک کام مثلا لوگوں کے لیے پانی کا انتظام کرنے اور نلکا کھدوانے کے لیے دے دے، تو اِس پروسس کے بعد اُن پیسوں سے نلکا کھدوا سکتے ہیں۔ اگر شرعی فقیرکومالک کیے بغیرزکاۃ کی رقم سے ڈائریکٹ نلکا کھدوا دیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، کیونکہ اس صورت میں شرعی فقیر کو اس رقم کا مالک بنانا نہیں پایا جائے گا، جو کہ صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی کے لیے لازمی شرط ہے۔
زکوٰۃ کی تعریف کرتے ہوئے فتاوی عالمگیری میں ہے :’’أما تفسیرھا فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی‘‘ ترجمہ: زکوۃ کا معنی یہ ہے کہ مسلمان غیر ہاشمی فقیر کو مال کامالک بنا دیا جائے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الزکوۃ، الباب الاول، جلد1،صفحہ170، دار الفکر، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے: ’’أمَر اللہُ تعالٰی الملاک بإیتاء الزکاۃ لقولہ عزو جل:﴿وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ والإیتاء ھو التملیک ولذا سمی اللہ تعالی الزکاۃ صدقۃ بقولہ عز وجل:﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ﴾ والتصدق تملیک‘‘ ترجمہ: اللہ پاک نے مالداروں کو زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا :’’اور زکوۃ دو۔‘‘ اورایتاء یعنی دینے کا مطلب تملیک اور مالک کر دینا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ پاک نے زکوۃ کو صدقہ کہا ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : ’’صدقات فقیروں کے لیے ہیں۔“ اور صدقہ کرنا مالک بنانے کو کہتے ہیں۔(بدائع، کتاب الزکوۃ ، فصل رکن الزکوۃ، جلد2،صفحہ39، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے : ”زکاۃ شریعت میں اﷲ (عزوجل) کے لیے مال کے ایک حصہ کا ، جو شرع نے مقرر کیا ہے، مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اُس سے بالکل جدا کر لے۔“(بہار شریعت، حصہ5، جلد1، صفحہ874، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اسی میں ہے" زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صَرف کر سکتے کہ تملیکِ فقیر نہیں پائی گئی اور اِن امور میں صَرف (خرچ) کر نا چاہیں ، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صَرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا، اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا، تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا ، جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔"(بہار شریعت، حصہ5، جلد1، صفحہ890، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم