
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں پاکستان سے حج تمتع کرنے آیا ہوں، عمرہ کر کے احرام کھول دیا ہےاور ابھی مکہ ہی میں مقیم ہوں،معلوم یہ کرنا ہے کہ حج کا احرام باندھنے کے لئے آٹھ ذوالحجہ تک انتظار کرنا ہوگا یا اس سے پہلے بھی حج کا احرام باندھ سکتا ہوں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حجِ تمتع کرنے والا عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول کر مکہ ہی میں موجود ہو، تو اس کے لئے حج کا احرام حدودِ حرم ہی سے باندھنا ضروری ہےاورحج کا احرام آٹھ ذوالحجہ ہی کو باندھنا ضروری نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی باندھا جا سکتا ہے بلکہ جس شخص کو اطمینان ہو کہ وہ احرام کی پابندیاں نبھا لے گا، تو اب اس کے لئے آٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنا کئی اعتبار سے افضل ہے۔
اولاً: حدیثِ پاک میں فرمایا : جس کا ارادہ حج کا ہو، تو اس میں جلدی کرے اور حدیث میں تعجیل کا حکم دینا کم سے کم استحباب پر محمول ہوگا۔
ثانیاً: آٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنا بدن پر زیادہ شاق ہے کہ احرام باندھنے کے بعد ممنوعاتِ احرام سے خود کو بچانے کی خوب سعی و کوشش کی جاتی ہے اور اس میں یقیناً مشقت ہے اور حدیث میں فرمایا افضل عمل وہی ہے جس میں مشقت زیادہ ہو۔
ثالثاً: حج اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اور آٹھ تاریخ سے پہلے احرام باندھ لینے کی صورت میں عبادت کی طرف جلدی اور عبادت میں رغبت کا اظہار ہے۔
رابعاً:احرام خود ایک عبادت ہے اورآٹھ ذوالحجہ سے پہلے احرام باندھنے کی صورت میں جتنے دن پہلے احرام باندھا جائے اتنے ہی دن ایامِ عبادت میں گزریں گے۔
سننِ ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
”من أراد الحج فليتعجل “
یعنی جس کا ارادہ حج کا ہو، تو وہ اس میں جلدی کرے۔(ابو داؤد،ص226، حدیث: 1332- الجوھرۃ النیرۃ، 1/396- البنایۃ شرح الھدایۃ، 4/212-فتاوی رضویہ،10/743، 744)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء