
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
حج تمتع کی نیت سے مکہ میں ہوں۔ پہلا عمرہ ادا ہو گیا ہے۔ حج کے دنوں میں ابھی وقت ہے، تو کیا اس دوران میاں بیوی کا تعلق بنانا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر میاں اور بیوی دونوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور پھر عمرہ ادا کرنے کے بعد اگر میاں بیوی دونوں حلق یا قصر کرکے احرام کی پابندیوں سے نکل آئے ہیں، تو اب حج کا احرام باندھنے سے پہلے میاں بیوی دونوں تعلق بنا سکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو عمرہ ادا کرنے کے بعد حج سے پہلے احرام اتارنے اور بیویوں سے تعلقات قائم کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
صحیح بخاری میں حضرت جابررضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
"فلما قدمنا أمرنا النبي أن نحل و قال: أحلوا و أصيبوا من النساء قال عطاء: قال جابر: و لم يعزم عليهم، و لكن أحلهن لهم"
ترجمہ: پس جب ہم مکہ مکرمہ میں آئے توہمیں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے احرام سے باہرہونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: احرام کھول دو اور عورتوں سے تعلقات قائم کرو۔ حضرت عطا علیہ الرحمۃ نے فرمایا: حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان پربیویوں سے تعلقات کرنا لازم قرار نہیں دیا تھا لیکن بیویوں کو ان کے لیے حلال کردیا تھا۔
اس کی شرح میں عمدۃ القاری میں ہے
"قوله: أن نحل أي: بالإحلال أي: بأن نصير متمتعين بعد أن نجعله عمرة. قوله: و أصيبوا من النساء هو إذن لهم في جماع نسائهم."
ترجمہ: احرام کھولنے کا حکم دینے سے مراد یہ تھا کہ ہم اسے عمرے کااحرام بنانے کے بعدتمتع کرنے والے بن جائیں اوریہ جوفرمایاکہ: "عورتوں سے تعلقات قائم کرو" تواس سے ان کو اپنی عورتوں سے جماع کرنے کی اجازت دیناہے۔ (عمدۃ القاری، ج 25، ص 78، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے
"(ويطوف ويسعى) كما مر (ويحلق أو يقصر) إن شاء (ويقطع التلبية في أول طوافه) للعمرة وأقام بمكة حلالا"
ترجمہ: اور (متمتع) طواف اور سعی کرے گا، جیسا کہ گزرچکا اور اگر چاہے، تو حلق یا قصر کرے گا اور عمرہ کے طواف کے شروع میں تلبیہ کو ختم کردے گا اور مکہ مکرمہ میں حلال ہونے کی صورت میں (یعنی بغیر احرام کے) قیام کرے گا۔
درِ مختار کی عبارت
”و أقام بمكة حلالا“
کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252 ھ / 1836 ء) لکھتے ہیں:
”أفاد أنه يفعل ما يفعله الحلال“
ترجمہ: اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ایسا شخص وہ کام کرسکتا ہے، جو بنا احرام والا کرسکتا ہے۔ (رد المحتار مع تنویر الابصار و درِ مختار، جلد 2، صفحہ 537، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3919
تاریخ اجراء: 15 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 12 جون 2025 ء