
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حل میں رہنے والا (یعنی حدودِ حرم سے باہر میقات کے اندر رہنے والا) شخص حجِ تمتع یا قران کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حل میں رہنے وا لاشخص حج تمتع و قران نہیں کر سکتا، بلکہ اس کےلیے فقط حج افرا د ہی جائز ہے کہ میقات میں رہنے والا شخص مکی کے حکم میں ہے کہ اس کےلیے کسی کام کی وجہ سے مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہو نا، جائز ہے ،مکی اور جو مکی کےحکم میں ہو ،اس کےلیے حجِ تمتع و قران جائز نہیں ہے کہ حج کے مہینے (یعنی شوال ،ذوالقعدہ ،اور ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن )حج کے ساتھ ہی خاص ہیں، لیکن ان میں آفاقی کی آسانی کے پیش نظر عمرہ جائز ہوا تاکہ اسے عمرہ کےلیے دوبارہ سفر نہ کرنا پڑے کہ اس میں اس کے لیے تنگی ہے ،جبکہ مکی اور جو اس کے حکم میں ہے ،اس کےلیے حج کے علاوہ دیگر مہینوں میں دوبارہ سفر کرنے میں کوئی مشکل و دقت نہیں ہے ،اس لیے اس کے لیے حج کے مہینوں میں عمرہ جائز نہیں ہے، البتہ جس حلی یا مکی نے اسی سال حج نہ کرنا ہو، تو اس کے لیے ان مہینو ں میں بالاتفاق عمرہ کرنا، جائز ہے اور جس نے اسی سال حج کرنا ہو، تو اس کےلیے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا، جائز نہیں ہے کہ عمر ہ کے بعد اسی سال حج کرنے کی صورت میں وہ حج قران ہوگا یا تمتع ہوگااور یہ دونوں مکی اور حلی کےلیے جائز نہیں ہیں ۔
قر آن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ-فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ-فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ-فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾
ترجمہ کنزالایمان :’’ اور حج اور عمرہ اللہ کےلیے پورا کرو ،پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو مُیَسَّر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے،پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے ،تو بدلے دے روزے یا خیرات یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے ہو،تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے ،اس پر قربانی ہے جیسی مُیَسَّر آئے، پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے، یہ حکم اس کے لیے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔(القرآن ، پارہ 02،سورۃ البقرۃ ،آیۃ 196)
اس آیت کے تحت تفسیر ات احمدیہ میں ہے:
’’التمتع لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام ومعناہ لم یکن مکیا فما فوقہ الی المیقات بل کان مسکنہ وراء المیقات فلا تمتع لمن لہ مسکنہ دونہ لانہ یتصور العمرۃ فی غیر اشھر الحج فیجوز لہ الافراد فقط بخلا ف الافاقی فانہ لایتصور لہ الاقامۃ مدۃ طویلۃ فالافضل لہ القران والتمتع لیکون مشرفا بکلتا النعمتین واذالم یجز لہ التمتع لم یجز لہ القران بالطریق الاولی لانہ افضل منہ ھذا عندنا‘‘
ترجمہ: حج تمتع اس شخص کےلیے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اورا س کا معنی یہ ہے کہ وہ مکی اور جو اس سے اوپر میقات تک رہنے والا ہو یعنی حلی ہو، بلکہ اس کا مسکن میقات سے باہر ہو (تو اس کےلیے حج تمتع ہے )،لہذا جس کا مسکن میقات کے اندر ہو تواس کے لیے حج تمتع نہیں ہے، کیونکہ اس کےلیے حج کے مہینوں کے علاوہ میں عمرہ متصور ہے ،لہذااس کے لیے فقط حج افراد جائز ہے،بخلاف آفاقی کے کیونکہ اس کے لیے مکہ میں زیادہ دیر کےلیے ٹھہرنا متصور نہیں ہے، لہذااس کےلیے حج قران و تمتع افضل ہے،تاکہ وہ دونوں نعمتوں سے مشرف ہو اور جب مکی اور حلی کے لیے تمتع جائز نہیں ہے، تو اس کےلیے حج ِقران بدرجہ اولیٰ ناجائز ہوگا،کیونکہ ہمارے نزدیک حج ِقران تمتع سے افضل ہے ۔(التفسیرات الاحمدیہ ، صفحہ92،مطوعہ کوئٹہ )
بدایۃ المبتدی میں ہے :
’’وليس لأهل مكة تمتع ولا قران وإنما لهم الإفراد خاصة ومن كان داخل المواقيت فهو بمنزلة المكي حتى لا يكون له متعة ولا قران‘‘
ترجمہ :اہلِ مکہ کےلیے حجِ تمتع و قران جائز نہیں ہے اور ان کےلیے خاص طور پر حج افرا د ہی ہے اور جو مواقیت کے اندر رہنے وا لا ہے ، وہ مکی کی طرح ہے، حتی کہ اس کے لیے حج ِتمتع و قران جائز نہیں ہے ۔(بدایۃ المبتدی ، صفحہ49،مکتبۃ ومطبعۃ محمد علی صبح ،قاھرہ)
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:
’’وليس لأهل مكة، ولا لأهل داخل المواقيت التي بينها وبين مكة: قران ولا تمتع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والصحيح قولنا؛ لأن الذين هم داخل المواقيت الخمسة منازلهم من توابع مكة، بدليل أنه يحل لهم أن يدخلوا مكة لحاجة بغير إحرام، فكانوا في حكم حاضري المسجد الحرام.وروي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: ليس لأهل مكة تمتع، ولا قران، ولأن دخول العمرة في أشهر الحج ثبت رخصة لقوله تعالى: {الحج أشهر معلومات} قيل في بعض وجوه التأويل: أي للحج أشهر معلومات، واللام للاختصاص فيقتضي اختصاص هذه الأشهر بالحج، وذلك بأن لا يدخل فيها غيره إلا أن العمرة دخلت فيها رخصة للآفاقي ضرورة تعذر إنشاء السفر للعمرة نظرا له بإسقاط أحد السفرين، وهذا المعنى لا يوجد في حق أهل مكة.ومن بمعناهم فلم تكن العمرة مشروعة في أشهر الحج في حقهم‘‘
ترجمہ : اہل مکہ اور موا قیت اور مکہ کے درمیان میں رہنے والوں کےلیے حجِ قران اور تمتع جائز نہیں ہے ۔۔۔۔۔صحیح ہماراقول ہے ،کیونکہ جو لوگ مواقیتِ خمسہ کے اندر رہنے والے ہیں ،ان کے گھر مکہ کے توابع میں سے ہیں، اس دلیل کی وجہ سے کہ ان کے لیے مکہ میں کسی حاجت کی وجہ سے بغیر احرام کے داخل ہونا، جائز ہے، لہذاوہ مسجد حرام میں موجود لوگوں کے حکم میں ہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :اہلِ مکہ کے لیے حجِ تمتع و قران جائز نہیں ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کا دخول رخصت کے طور پر ثابت ہوا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ حج چند معلوم مہینے ہیں ، تاویل کے وجوہات میں سے بعض میں کہا گیا یعنی حج کے لیے چند معلوم مہینے ہیں اور لام اختصاص کےلیے ہے ،لہذا یہ ان مہینوں کا حج کے ساتھ خاص ہونے کا تقاضا کرتا ہے اور اختصاص اس طریقہ پر ہوگا کہ ان مہینوں میں حاجی کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہو مگر عمرہ ان مہینوں میں آفاقی کےلیے رخصت کے طور پر ثابت ہوا ،کیونکہ ا س کےلیے عمرہ کے لیے نیا سفر کرنے میں مشکل ہے اور اس پر شفقت کرتے ہوئے دوسفروں میں سے ایک سفر ساقط کیا ۔اور یہ معنی اہل مکہ اور جو ان کے حکم میں ہیں ،ان کے حق میں موجود نہیں ہے ،لہذا حج کے مہینوں میں اہل مکہ اور ان کے حکم میں افراد کے لیے عمرہ مشروع نہیں ہے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، جلد02،صفحہ169،دارالکتب العلمیہ )
حیات القلوب فی زیارۃ المحبوب میں ہے :
’’ اما حکم اعتمار در اشھر حج درحق مکی وکسے کہ وارد شدہ است درمکہ وکسےکہ ساکن است درقرب مکہ داخل مواقیت پس آن است کہ عمرہ کردن دراشھر حج درحق او جائز است باتفاق علماء اگر دران سال حج نکند، زیرانکہ ایک عمرہ مفرد است کذا افاد فی "شرح الکرخی للامام قدوری "والمبسوط لشیخ الاسلام "والنھایۃ" و"العنایۃ "و"البحر الرائق "وامااگر عمرہ کند وبعد ازان حج نیز کند دراں سال پس آن دو قسم است یا بروجہ تمتع است یا بروجہ قران واین ہر دو وجہ منہی است درحق مکی ومن فی حکمہ نہ درحق آفاقی‘‘
ترجمہ : مکی اور جو مکہ میں ٹھہرنے والا ہو اور جو مکہ کے قریب مواقیت کے اندر رہنے والا ہو ، اس کے لیے حج کے مہینوں میں باتفاق ِعلماء عمرہ کرنا، جائز ہے، بشرطیکہ وہ اسی سال حج نہ کرے ،کیونکہ اس صورت میں اس کا یہ عمرہ مفرد ہے ،اسی طرح امام قدوری کی شرح کرخی ،شیخ الاسلام کی مبسوط اور نہایہ ،عنایہ اور بحر الرائق میں افادہ کیا اور بہر حال (جو شخص مکی اور مکی کے حکم میں ہے ) وہ عمرہ کرے اور اس کے بعد اسی سال حج کرے پس وہ دو قسم پر ہے یا تو بر وجہ تمتع ہو گا یا بروجہ قران اور یہ ہر دو وجوہ اس کے حق میں ممنوع ہیں جو مکی اور مکی کے حکم میں ہے، نہ کہ آفاقی کے حق میں ۔(حیات القلوب فی زیارۃ المحبوب ، باب سیزدھم ،صفحہ234،مخطوطہ )
تنویر الابصار میں ہے :
’’(وأشهره شوال وذو القعدة وعشر ذي الحجة) ‘‘
ترجمہ : حج کے مہینے شوال ،ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں ۔
(درمختار و ردالمحتار ، جلد 02،صفحہ465،دارالفکر ،بیروت )
رفیق الحرمین میں ہے :’’حل :حدود ِ حرم کے با ہر سے میقات تک کی زمین کو "حل "کہتے ہیں۔اس جگہ وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم کی وجہ سے حدود حرم میں حرام ہیں۔زمین ِحل کا رہنے والا "حلی"کہلاتا ہے ۔‘‘ (رفیق الحرمین ، صفحہ64،مکتبۃ المدینہ،کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Knl-0275
تاریخ اجراء:22ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/20 مئی 2025ء