
مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
فتوی نمبر:WAT-3466
تاریخ اجراء: 13رجب المرجب 1446ھ/14جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی حرم پاک سے حدیبیہ کے مقام کی زیارت کرنے جائے، تو وہاں سے واپس حرم میں آنے پر اگر اس کا ارادہ عمرے کا نہ ہو،تو اس پر احرام لازم ہو گا یانہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگرکوئی مکہ مکرمہ سے مقامِ حدیبیہ زیارت کے لیے جائے تو اس پرواپس مکہ مکرمہ آتے ہوئے احرام باندھنا لازم نہیں ،کیونکہ مقامِ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم میں ہے اور کچھ حصہ حل میں ہے اور اصول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ سے جب کوئی حل کی طرف جائے، تو واپس حرم آتے ہوئے اگر عمرہ یا حج کاارادہ نہ ہو،تو احرام ضروری نہیں،بغیراحرام کے بھی آسکتا ہے ،بغیراحرام کے آنے میں کسی قسم کی جنایت نہیں ہو گی اور کوئی دم وغیرہ بھی لازم نہیں ہو گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے”المکی اذا خرج الی الحل للاحتطاب اوالاحتشاش ثم دخل مکۃ یباح لہ الدخول بغیراحرام و کذلک الآفاقی اذاصار من اھل البستان“ ترجمہ : مکہ مکرمہ کا رہائشی جب حل کی طرف لکڑیاں چننے یاگھاس جمع کرنے نکلا،پھر مکہ میں داخل ہوا، تواس کے لیے بغیر احرام داخل ہونامباح ہے ، یونہی آفاقی شخص جب اہل بستان والوں میں ہوجائے ،تو اس کا حل سے مکہ بغیراحرام داخل ہونا ، جائزہے۔ (فتاوی ہندیہ،ج 1،ص 221،دار الفکر،بیروت)
صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :” جولوگ میقات کے اندر کے رہنے والے ہیں۔۔۔ یہ لوگ اگر حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتے ہوں، توبغیر احرام مکہ معظمہ جاسکتے ہیں۔“(بہارشریعت،جلد1،حصہ 6،صفحہ 1068، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی حج و عمرہ میں ہے ” حدیبیہ : مکہ جدّہ کی قدیم شاہراہ پر ایک مقام ہے ، آج کل یہ جگہ شمیسی کے نام سے معروف ہے ، یہ مسجد الحرام کی مغربی سمت میں ہے بقول صاحبِ ہدایہ کے اِس کا کچھ حصہ حرم میں ہے ، اس جگہ ایک نئی مسجد تعمیر کی گئی ہے اور ایک قدیم مسجد کے آثار بھی ملتے ہیں۔“ (فتاوی حج و عمرہ ، حصہ 1، ص 104،جمعیتِ اشاعتِ اہلسنت، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم