احرام کی حالت میں سر یا چہرہ چھپانے سے دم یا کفارہ کا حکم

حالت احرام میں سر یا چہرہ چھپانے سے دم یا کفارہ لازم ہوگا؟ تفصیلی فتوی

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے علمائے کرام سے یہ مسئلہ سنا ہے کہ مرد حالت احرام میں چادروغیرہ  سرپر نہیں اوڑھ سکتا، جبکہ مردو  عورت دونوں ہی کسی کپڑے یا ماسک وغیرہ سےچہرے کو نہیں چھپاسکتے۔عرض یہ ہے کہ  اگر  کوئی مرد سخت گرمی یا سردی کے عذرکی وجہ سے سرپرچادر اوڑھ لے یا  مرد وعورت دونوں  سخت دھوپ ہی کی وجہ سے ماسک وغیرہ کسی کپڑے سے چہرے کوچھپا لیں ،تو کیا حکم ہوگا اور اس پر کیا کفارہ لازم آئے گا،پورا سر یا چہرہ  چھپا ہو یا تھوڑا؟اور اگر ایسا بغیر عذر کے کیا جائے، توکیا  کفارہ  ہوگا؟برائے مہربانی آسان الفاظ میں وضاحت کےساتھ ارشاد فرمادیں ،تاکہ مکمل مسئلہ معلوم ہوجائے اور  میرے جیسے دوسرے لوگ بھی اس کو سمجھ  کر عمل کرسکیں ۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عندالشرع حالت احرام میں مرد کا سر یا چہرہ اور عورت کا چہرہ  چھپانا ،  ممنوع وناجائز ہے۔اگر کوئی  شخص حالت احرام میں کسی عذر شرعی کی وجہ سے یا بلا عذر شرعی کسی کپڑے وغیرہ  ایسی چیز سےسریاچہرہ  چھپائے، جس کو عرف و عادت میں چھپانا کہا جائے،یونہی عورت  مذکورہ طریقے سے چہرہ چھپائے، تو اس پر کفارہ واجب ہوگا، البتہ اگرکسی  عذرشرعی کی بنا پر ایسا کریں گے، تو گنہگار نہیں ہوں گےاور اگر بلا عذر شرعی ایسا کیا تو گناہ بھی ہوگا، جس سے توبہ کرنا لازم ہے۔فقہا کی تصریحات کے مطابق اس معاملے میں  سخت دھوپ وگرمی وسردی بھی شرعی عذر بنتے ہیں، لہذا سخت گرمی یا سخت دھوپ کی وجہ سے اگر کوئی اور چارہ کار نہ ہو،تو چھپانے کی اجازت ہوگی،لیکن کفارہ پھر بھی لازم ہوگا  ۔ باقی عذر وغیرعذر کی صورت میں کفارے کی تفصیل درج ذیل ہے :

حالت احرام میں عذر شرعی سے سر یا چہرہ چھپانے میں کفارے کی تفصیل:

(1)اگرکسی نے عذر شرعی کی وجہ سے مکمل ایک دن یا ایک رات سارا سر یا چہرہ یا ان کا چوتھائی حصہ چھپایا،تواسے اختیار ہے کہ ایک دم حدود حرم میں قربان کرے یا چھ صدقہ فطر چھ مسکینوں کو دے  دے یا تین روزے جس طرح چاہے رکھ لے۔اگرچھ صدقے ایک مسکین کو دےدیے یا تین یا سات مساکین پر تقسیم کر دیے، تو کفارہ ادا نہ ہوگا،بلکہ شرط یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو دے اور افضل یہ ہے کہ حرم کے مساکین ہوں۔

(2)اگرکسی نے عذر  شرعی کی وجہ سے کا مل ایک دن یا رات سے کم سارا سریا چہرہ یا کم از کم ان کا چوتھائی  حصہ چھپایا، اگرچہ ایک لمحے کے لیے ہو،تواسے اختیار ہے کہ  ایک صدقہ فطر کی مقدار جہاں چاہے صدقہ کرے یاایک روزہ جہاں چاہے رکھ لے۔

(3)اگرکسی نے عذر  شرعی کی وجہ سے چوتھائی سر  یا چہرے سے کم کامل ایک دن یا ایک رات تک چھپایا تو ایک صدقہ فطر کی مقدار جہاں چاہے صدقہ کرے یاایک روزہ جہاں چاہے رکھ لے۔

(4)  اگر کسی نے عذر شرعی کی وجہ سے چوتھائی سر یا چہرے  سے کم، مکمل ایک دن یا ایک رات سے کم چھپایا تو  کچھ لازم نہیں ۔

حالت احرام میں بلا عذر شرعی  سر یا چہرہ چھپانے میں کفارے کی تفصیل:

(1)اگرکسی نے بلا عذر شرعی مکمل ایک دن یا ایک رات سارا سر یا چہرہ یا ان کا چوتھائی حصہ چھپایا، تو ایک دم ہی حدود حرم میں قربان کرنا لازم ہے ۔اس صورت میں دم کی جگہ صدقہ دینے یا روزے رکھنے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔

(2) اگرکسی نے بلا عذر  شرعی کا مل ایک دن یا رات سے کم سارا سریا چہرہ یا کم از کم ان کا چوتھائی  حصہ چھپایا، اگرچہ ایک لمحے کے لیے ہو،تو  خاص ایک صدقہ فطر کی مقدار ہی دینا لازم ہے ، جہاں چاہے صدقہ کرے ۔ اس صورت میں روزہ کفایت  نہیں کرے گا۔

(3)اگرکسی نے بلا عذر  شرعی چوتھائی سر  یا چہرے سے کم کامل ایک دن یا ایک رات تک چھپایا تواس صورت میں بھی خاص ایک صدقہ فطر کی مقدار کسی مسکین کو دینا ہی لازم ہے ۔اس صورت میں  بھی روزہ کفایت  نہیں کرے گا۔

(4)  اگر کسی نےبلا عذر شرعی چوتھائی سر یا چہرے  سے کم، مکمل ایک دن یا ایک رات سے کم چھپایا ، تومکروہ تحریمی ،ناجائز وگناہ ہے،لیکن اس صورت  میں کفارہ واجب نہیں ہے ۔

نوٹ:حج وعمرے کی جنایات کی وجہ سے لازم آنے والے دم سے مراد ایک بکری(اس میں نر ،مادہ ،دنبہ ، بھیڑسب شامل ہیں)جو قربانی کی شرائط  کے مطابق ہو،اس کو  حدود حرم میں   دم کی ادائیگی کےلیے ذبح  کرنا ہے ۔اور اس معاملے میں صدقے سے مراد ایک صدقہ فطر کے برابر ہے یعنی نصف صاع (ایک کلو نو سو بیس گرام )گندم یا اس کا آٹا یا ستو یاایک صاع (تین کلو آٹھ سو چالیس گرام )کجھوریں ،منقی یا جو یا اس کا آٹا یاستو یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کسی فقیر شرعی یعنی مستحق ِزکوۃ شخص کو دینا ہے۔ چاہے حرم شریف میں دے دے یا اپنے وطن واپس آکر کسی فقیر کو دے دے، البتہ افضل یہ ہے کہ حرم کے فقیروں کو ہی دیا جائے ۔                                                                                                                                                                                                                                                          

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’و لو غطی المحرم راسہ او وجھہ یوما فعلیہ دم و ان کا ن اقل من ذالک فعلیہ صدقۃ کذا فی الخلاصہ ،و کذا اذا غطی لیلۃ کاملۃ سواء غطاہ عامدا او ناسیا او نائما،اذا غطی ربع راسہ فصاعدا یوما فعلیہ دم و ان کا ن اقل من ذالک فعلیہ صدقۃ ‘‘

ترجمہ: اور اگر محرم نے اپنا سر یا چہرہ چھپایا ایک دن ،تو اس پر ایک دم ہے اور اگر ایک دن سے کم چھپایا، تو اس پر صدقہ ہے ،ایسے ہی خلاصہ میں ہے اور اسی طرح جب وہ ایک پوری رات چھپائے برابر ہے کہ ان (چہرے اور سر )کو چھپایا ہو جان بوجھ کر یا بھول کر یا سوتے ہوئے ، جب چوتھائی سر یا اس سے زیادہ پورا ایک دن چھپایا تو اس پر دم ہے اور اگر اس سے کم ہو ،تو اس پر صدقہ ہے۔(فتاوی عالمگیری ، الفصل الثانی فی اللبس، جلد1،صفحہ242،مطبوعہ کوئٹہ)

سخت گرمی وسردی اور زخم وغیرہ عذر شرعی بنتے ہیں، چنانچہ تنویر الابصار مع درالمختار و رد المحتار میں شرعی اعذار اور عذر وعدم عذر کی صورت میں لازم آنے والے کفارے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاہے:

’’الواجب دم علی محرم بالغ۔۔۔ولوناسیا او جاھلا او مکرھا۔۔۔ستر راسہ کلہ او ربعہ بمعتاد(أي بما يقصد به التغطية عادة)۔۔یوما کاملا او لیلۃ کاملۃ و فی الاقل صدقۃ ۔۔بعذر(الحمی والبرد والجرح والقرح ) خیر ان شاء ذبح فی الحرم او تصدق بثلاثۃ اصوع طعام علی ستۃ مساکین این شاء او صام ثلاثۃ ایام ولو متفرقۃ(هذا فيما يجب فيه الدم، أما ما يجب فيه الصدقة، إن شاء تصدق بما وجب عليه من نصف صاع أو أقل على مسكين أو صام يوما كما في اللباب)ملتقطا (والعبارۃ بین الھلالین مزیدا من ردالمحتار)‘‘

ترجمہ: دم واجب ہے ہر محرم بالغ پر جس نے اپنا سارا یا چوتھائی سر معتاد طریقے پر یعنی ایسی چیز سے چھپایا ہو جس سے عادتا چھپایا جاتا ہو،کامل ایک دن یا ایک رات چھپایا اور اگر کامل ایک دن یاایک رات سے کم  چھپایا ،تو صدقہ ہے ۔اگر عذر(بخار ،سردی ،زخم ،پھوڑے) کی وجہ سے ہو ،تو اختیار ہے ،چاہے ایک بکری حرم میں ذبح کرے یا تین صاع گندم چھ مسکینوں پر صدقہ کرے جہاں چاہے یا تین روزے رکھ لے ،اگرچہ متفرق طور پر اور یہ حکم ان  صورتوں کا ہےجن میں دم واجب  ہو ،بہرحال جس صورت میں صدقہ واجب ہوا ہو ،تو(عذر کی صورت میں )اگر چاہے ،تو وہ مسکین پر صدقہ کردے جو نصف صاع یا اس سے کم واجب ہوا ہےیا ایک روزہ رکھ لے، جیسا کہ لباب میں ہے  ۔(تنویر الابصار مع درالمختار و رد المختار،جلد3،صفحہ 51، 52، 57،71،672، مطبوعہ کوئٹہ) 

جدالممتار علی رد المحتار میں ہے:

’’وفی الاقل صدقۃ ای اذا ستر کل راسہ او وجھہ او ربع احدھما اقل من یوم او لیلۃ ففیہ نصف صاع ، قلت: و کذا اذا ستر اقل من ربع راسہ او وجھہ یوما کاملا او لیلۃ کاملۃ ففیہ ایضا نصف صاع ۔۔بقی ما اذا ستر اقل من الربع فی اقل یوم او لیلۃ ولا شک فی منعہ و کراھتہ تحریما ‘‘

ترجمہ: اور کم میں صدقہ ہے یعنی جب سارا سر یا چہرہ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا چوتھائی ایک دن یا ایک رات سے کم چھپایا، تو اس میں نصف صاع ہے ، میں کہتا ہوں اور اسی طرح جب چوتھائی سر یاچہرے سے کم کامل ایک دن یا ایک رات چھپایا، تو اس میں بھی نصف صاع ہے،باقی رہا وہ کہ جب چوتھائی سے کم کامل ایک دن یا ایک رات سے کم چھپایا ،تو اس کے منع اور مکروہ تحریمی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔(جدالممتار علی رد المحتار، باب الجنایات ، جلد 4، صفحہ 322،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’جو مرد اپنا سارایا چوتھائی سر بحالت احرام چُھپائے جسے عادۃ سر چھپانا کہیں، جیسے ٹوپی پہننا، عمامہ سر باندھنا، سر سے چادر اوڑھنا، دُھوپ کے باعث سر پر کپڑا ڈالنا، درد کے سبب سر کسنا، زخم کی وجہ سے پٹی باندھنا ( نہ گٹھڑی یا صندوق یاخوان وغیرہ کا سر پر اٹھانا کہ یہ سر چھپانے میں داخل نہیں) اس پر مطلقاً جُرمانہ واجب ہےاگر چہ بھولے سے، اگر چہ سوتے میں، ا گر چہ بیہوشی میں اگر چہ عذر سے ،مگرصحت حج میں خلل نہیں، ہاں ایک طرح کا قصور ہے جس کی تلافی کو جُرمانہ مقرر ہوا، جیسے نماز میں سہواً ترک واجب سے سجدہ، عذر و بے عذر میں اتنا فرق ہے اگر بے عذر ایک دن کامل یا ایک رات کامل یا اس سے زائد سرچھپارہا ،تو خاص حرم میں ایک قربانی ہی کرنی ہوگی جب چاہے کرے، دُوسرا طریقہ کفارہ کا نہیں اور عذر مثلاً: بخار یا سردی یا  زخم یا درد کے سبب اتنی مدت چھپایا تو اختیار ہوگا حرم میں قربانی کرے یا جہاں چاہے جب چاہے تین صاع گیہوں یا مثلا چھ صاع جَو، چھ مسکینوں کو دے یا تین روزے جس طرح چاہے رکھ لے، اور اگر کامل دن یا رات کی مدت سے کم چھپا رہا اگر چہ کتنی ہی تھوڑی دیر کو توبے عذری کی صورت میں صدقہ فطر کی طرح خاص صدقہ ہی لازم ہوگا، یعنی نیم صاع گیہوں یا مثلاً ایک صاع جَو کہ جہاں چاہے دے اور بصورت عذر مختار ہو گا چاہے یہ صدقہ دے یا ایک روزہ جہاں چاہے رکھ لے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، جلد10،صفحہ713،رضافائونڈیشن، لاھور)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمۃبہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جُوؤں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا ،تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں۔ اس میں اختیار ہو گا کہ دَم کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے، اگر چھ صدقے ایک مسکین کو دیدیے یا تین یا سات مساکین پر تقسیم کر دیے تو کفارہ ادا نہ ہوگا،بلکہ شرط یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو دے اور افضل یہ ہے کہ حرم کے مساکین ہوں اور اگر اس میں صدقہ کا حکم ہے اور بمجبور ی کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے۔‘‘(بھار شریعت ، جلد1،حصہ6،صفحہ1162،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اگر جرم بلاعذر شرعی ہو،تو کفارے کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہوتا ہے ،چنانچہ

’’ارشادالساری الی مناسک الملا علی القاری‘‘ میں ہے:

”(المحرم اذا جنی عمداً بلا عذر یجب علیہ الجزاء )ای جزاء فعلہ وھوالکفارۃ (والاثم )ای وتدارک اثمہ وھو التوبۃ عن المعصیۃ (وان جنی بغیر عمد او بعذر فعلیہ الجزاء دون الاثم )“

ترجمہ: محرم جب جان بوجھ کر بلاعذر جرم کرے ،تو اس پر اپنے اس فعل کی جزایعنی کفارہ بھی لازم ہوتا ہے اور گناہ بھی ہوتا ہے یعنی اس کے گناہ کو ختم کرنے والی چیز معصیت سے توبہ کرنا ہے اور اگر اس نے انجانے میں یا عذر کی وجہ سے جرم کیا تو اس پر اس فعل کاکفارہ لازم ہے ،گناہ نہیں ۔(ارشادالساری الی مناسک الملا علی القاری،صفحہ421،مطبوعہ پشاور)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’مُحرم اگر بالقصد بلا عُذر جرم کرے تو کفارہ بھی واجب ہے اور گنہگار بھی ہوا، لہٰذا اس صورت میں توبہ واجب کہ محض کفارہ سے پاک نہ ہوگا جب تک توبہ نہ کرے اور اگر نادانستہ یا عذر سے ہے ،تو کفارہ کافی ہے۔ جرم میں کفارہ بہرحال لازم ہے، یا د سے ہو یا بھول چوک سے، اس کا جرم ہونا جانتا ہو یا معلوم نہ ہو، خوشی سے ہو یا مجبوراً، سوتے میں ہو یا بیداری میں، نشہ یا بے ہوشی میں یا ہوش میں، اُس نے اپنے آپ کیا ہو یا دوسرے نے اُس کے حکم سے کیا۔‘‘ (بھار شریعت ، جلد1،حصہ6،صفحہ1162،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

البحرالعمیق میں ہے:

”والدم شاۃ اوسبع بدنۃ صفتھا صفۃ الاضحیۃ“

ترجمہ:اور دم بکری یابدنہ( گائے اونٹ )کاساتواں حصہ ہے، اس کے اوصاف وہی ہیں جو قربانی کے جانور میں ہوتے ہیں ۔(البحرالعمیق ،جلد2،صفحہ822،مطبوعہ موسسۃ الریان ،المکتبۃالمکیہ )

مبسوط للسرخسی میں ہے:

”کل دم وجب علیہ بطریق الکفارۃ فی شیء من أمر الحج أو العمرۃ فإنہ لا یجزئہ ذبحہ إلا فی الحرم“

ترجمہ:ہر وہ دم جو حج یا عمرے کے امور میں سے کسی شے کے بدلے میں بطور کفارہ واجب ہو، تو اس کا حرم کے سوا کسی اور جگہ ذبح کر نا کافی نہیں۔(مبسوط للسرخسی،کتاب الحج ،باب الحلق،جلد4،صفحہ75،دارالمعرفہ، بیروت )

جرمانے کے صدقے کے بارے میں تنویرالابصار مع درالمختار وردالمحتار میں ہے:

”تصدق بنصف صاع من بركالفطرة (أفاد أن التقييد بنصف الصاع من البر اتفاقي فيجوز إخراج الصاع من التمر أو الشعير) والعبارۃ بین الھلالین مزیدا من ردالمحتار“

ترجمہ:صدقہ فطر کی طرح نصف صاع گندم صدقہ کرے ۔صدقہ فطرکی طرح کہہ کر مصنف علیہ الرحمۃ نے اس بات کا افادہ کیا کہ نصف صاع گندم کی قیداتفاقی ہے، پس ایک صاع کھجور یں یا ایک صاع جَو صدقہ کرنا بھی جائز ہے ۔( تنویرالابصار مع درالمختار وردالمحتار ،جلد2،صفحہ 557،مطبوعہ بیروت)

صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃاللہ علیہ بہارشریعت میں فرماتے ہیں :”صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے گیہوں یا اس کا آٹا یا ستّو نصف صاع، کھجور یا منقے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو ایک صاع۔‘‘ ( بھارشریعت ،جلد1،حصہ 5، صفحہ938، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

حج وعمرے کی جنایت پر لازم آنے والا صدقہ کسی بھی مقام پر ادا کیا جاسکتا ہے تاہم مستحب یہ ہے کہ حرم کے فقراء ومساکین کو دیا جائے ،چنانچہ ’’الجوہرۃ النیرۃ ‘‘میں ہے:

”فالصوم يجزئه في أي موضع شاء ويجزئه إن شاء تابعه وإن شاء فرقه وكذا الصدقة تجزئه عندنا حيث أحب إلا أنها تستحب على مساكين الحرم“

ترجمہ:جنایت کی وجہ سے لازم آنے والے روزےکسی بھی جگہ رکھ لیے جائیں کافی ہیں چاہے پے درپے رکھےجائیں، چاہے متفرق طور پر اور اسی طرح صدقہ بھی ہمارے نزدیک کافی ہوجاتا ہے اس حیثیت سے کہ حرم میں ادا کرنا زیادہ اچھا ہے، کیونکہ حرم کے مساکین پر صدقہ کرنا مستحب ہے۔(الجوھرۃ النیرۃ،کتاب الحج  ،جلد1،صفحہ 170،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: ابوالقاسم محمد اعظم  قادری 

مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar -13397

تاریخ اجراء:29ذوالقعدۃ الحرام 1446 ھ/27مئی 2025ء