Nabaligh Ihram Ke Khilaf Kuch Karde To Dam Kis Par Hoga?

نابالغ بچہ احرام کے خلاف کرے تو دم والدین پر ہوگا یا بچے پر؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9219

تاریخ اجراء:24جمادی الثانی 1446ھ/27 دسمبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ بہت سے لوگ عمرہ کرنے جاتے ہیں، تو اپنے نابالغ بچے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اُنہیں بھی اپنے ساتھ عمرہ ادا کرواتے ہیں۔ اُن بچوں کے متعلق سوال یہ ہےکہ اگر وہ کوئی ایسا فعل کریں، کہ جس کے سبب دم لازم ہوتا ہو، تو کیا بچوں کی طرف سے اُن کے والدین دَم ادا کریں گے یا بچوں کی ملکیت میں موجود رقم سے دم ادا کیا جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ بچہ حج یا عمرے کا احرام باندھ کر ایسے افعال کرے کہ جو حالتِ احرام میں ممنوع ہوں اور اُن کے ارتکاب سے دَم وغیرہ لازم آتا ہو،  تو  بچے یا اُس کےوالد، دونوں میں سے کسی پر بھی دَم یا کفارہ لازم نہیں ہے، کیونکہ دَم یا کفارہ واجب ہونے کے لیے فقہائے کرام نے ”بالغ ہونے“ کی شرط رکھی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ بچے پر دم لازم نہیں ہوتا۔ نیز دوسری وجہ یہ  بھی ہے کہ بچے کو احرام پہنانا اور اپنے ساتھ مناسک ادا کروانا، اُس کی مشق اور مناسک کو ادا کرنے کی تربیت کے لیے ہوتا ہے۔ حقیقتِ حال میں اُس کا تلبیہ پڑھنا یا احرام باندھنا اُس پر شرعی پابندیاں واجب نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ اگر بچہ اپنے حج کو فاسد کر دے، تو اُس پر قضا یا  دَم کچھ بھی واجب نہیں۔

   دَم کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1088ھ /1677ء) لکھتے ہیں: ”الواجب دم على محرم بالغ فلا شيء على الصبي خلافا للشافعي“ ترجمہ: بالغ مُحرم پر دم واجب ہوتا ہے، لہذا نابالغ بچے پر دم  لازم نہیں ہوتا، البتہ امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہاں حکم مختلف ہے۔(اُن کے نزدیک نابالغ پر بھی دم واجب ہوتا ہے۔)(درمختار مع ردالمحتار، جلد07،باب الجنایات، صفحہ212، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   لہذا اولاً تو یہی چاہیے کہ والد یا سرپرست بچے کو جنایات سے بچائے، لیکن اگر بچہ کسی جنایت کا ارتکاب کر بیٹھے، تو اُس پر کفارہ لازم نہیں، چنانچہالمسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے: ”ينبغي لوليه أن يجنبه من محظورات الإحرام كلبس المخيط واستعمال الطيب ونحوهما وإن ارتكبها الصبي شيئاً من المحظورات (لا شيء عليه)“ ترجمہ: بچے کے ولی کو چاہیے کہ بچے کو احرام کے ممنوعات سے بچائے، مثلاً: سلے ہوئے کپڑے پہننا یا خوشبو استعمال کرنا وغیرہا، البتہ اگر بچہ کسی جنایت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، تو اُس پر شرعاً دم یا کفارہ لازم نہیں ہے۔(المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط  ، صفحہ 159، مطبوعہ مکہ مکرمہ)

   علامہ اَحمد طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1231ھ/1815ء) نے لکھا:”ان صبیا احرم عنہ ابوہ وجنبہ ما یتجنب المحرم فلبس الصبی ثوبا او اصاب طیبا او صیدا لا شئی علیہ لان احرامہ للتمرن لا للایجاب والصبی لا یجب علیہ شئی من العبادات“ ترجمہ:ایسا بچہ کہ جس کی طرف سے اُس کے والد نے احرام  کی نیت کی اور اُسے ہر اُس چیز سے  بچایا، جس سے مُحرِم بچتا ہے، لیکن اِس کے باوجود بچے نے سلے ہوئے کپڑے پہن لیے یا خوشبو لگا لی یا شکار کر لیا، تو اِن سب جنایات کے ارتکاب کے باوجود بچے پر کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہے، کیونکہ بچے کا احرام فقط مشق  کروانے اور اُس کی تربیت کرنے کےلیے ہوتا ہے،  کسی عبادت کو واجب کرنے کےلیے نہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ بچے پر(عدمِ بلوغ کے سبب) عبادات میں سے شرعاً کچھ واجب یا لازم نہیں ہوتا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد1، صفحہ 519، مطبوعہ کوئٹہ)

   بچہ اپنا حج فاسد کر دے تو اُس پر حج کی قضالازم نہیں، چنانچہ  فتاوٰی عالَم گیری میں ہے:’’لو أفسده لا قضاء عليه‘‘ ترجمہ:اگر بچہ اپنا حج فاسد کر دے، تو اُس پر حج کی قضا لازم نہیں۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد01، صفحہ236،مطبوعہ کوئٹہ)

   نوٹ:نابالغ بچے کے حج، عمرےاور اِحرام سے متعلق مزید معلومات کے لیے”رفیق الحَرَمین “اور”رفیق المُعتمرین کا مطالعہ کیجیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم