
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-484
تاریخ اجراء:16 محرم الحرام6144ھ/23جولائی2024
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون عمرہ کے لیے ریاض سے مکہ جا رہی تھی، جب وہ میقات پہنچی،تو اس کے خاص ایام شروع ہو گئے۔اب اس حالت میں وہ حرم کی حدود میں داخل ہو سکتی ہے؟ اور اب کہ وہ اس حالت میں عمرہ نہیں کرسکے گی، تو کیا اس پر دَم لازم ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ماہواری کی حالت میں بھی عورت حدود حرم میں داخل ہوسکتی ہے،مگر جبکہ وہ میقات کے باہر سے آرہی ہے ،تو اسے میقات سے عمرے کے احرام کی نیت کرکے ہی حدود حرم میں داخل ہونا ہوگا،بغیر احرام کی نیت کے حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتی،اگر احرام کی نیت کیے بغیر میقات سے گزرجائے گی، تو اُس پر دم لازم ہوجائے گا،ہاں جب واپس میقات جاکر عمرہ یا حج کے احرام کی نیت اور تلبیہ کہہ لے گی، تو اس پر لازم ہونے والا دم ساقط ہوجائے گا، البتہ جان بوجھ کر میقات سے بغیر احرام گزرنے کی وجہ سےگنہگار ہوگی،جس سے توبہ کرنا ضروری ہوگا۔نیز جب میقات سے عمرے کی نیت کے ساتھ حدود حرم میں داخل ہوجائے گی،تو اُسے بہرحال عمرہ ہی ادا کرنا ہوگا، دم دینا کافی نہیں ہوگا، بغیر عمرہ کے وہ احرام سے باہر نہیں آسکے گی، البتہ ماہواری کی حالت میں فی الحال عمرہ نہیں کرے گی،بلکہ عمرے کی ادائیگی کے لیے پاک ہونے کا انتظار کرے گی،جب پاک ہوجائے گی،تو غسل کرکے عمرہ ادا کرے گی۔
حرم مکہ داخل ہونے والے کے لیے میقات سے عمرہ یا حج کے احرام کی نیت واجب ہے،چنانچہ لباب المناسک میں ہے:’’)وحکمھا وجوب الاحرام منھا لاحد النسکین وتحریم تاخیرہ عنھا لمن اراد دخول مکۃ أو الحرم(‘‘ترجمہ:میقات کا حکم یہ ہے کہ جو شخص مکہ یا حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے،اس کے لیےعمرہ یا حج میں سے کسی ایک کا احرام میقات سے باندھنا واجب ہے اور (جان بوجھ کر)احرام کو میقات سے مؤخر کرنا،حرام ہے۔(لباب المناسک،فصل فی مواقی،الصنف الاول،صفحہ88،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(من جاوز وقتہ غیر محرم...فعلیہ العود)أی فیجب علیہ الرجوع(الی وقت)أی الی میقات من المواقیت(وان لم یعد فعلیہ دم...فان عاد)أی المتجاوز (سقط)أی الدم(ان لبی منہ)أی من المیقات علی فرض أنہ احرم بعدہ،والا فلا بد ان ینوی ویلبی لیصیر محرما حینئذ‘‘ترجمہ:جو شخص بغیر احرام کی نیت کے میقات سے گزرجائے،تو اس پر کسی بھی میقات پر واپس لوٹنا واجب ہے،اور اگر واپس نہ گیا، تو اس پر دم لازم ہوگا،اور اگر واپس کسی میقات پر چلا گیا اور تلبیہ کہہ لی، تو دم ساقط ہوگیا یعنی جبکہ میقات سے گزرنے کے بعد(حرم میں ہی کسی جگہ) احرام کی نیت کرلی ہو اور اگر احرام کی نیت نہیں کی تو اب ضروری ہے کہ میقات پر جاکر نیت کرے اور تلبیہ کہے تاکہ وہ اُس وقت مُحرم ہوجائے۔(لباب المناسک مع شرحہ،فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،صفحہ94،95،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
بہار شریعت میں ہے:’’ میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر آیا، تو دَم ساقط اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے جو اُس پر حج یا عمرہ واجب ہوا تھا اس کا احرام باندھا اور ادا کیا،تو برئ الذّمہ ہوگیا۔‘‘(بھار شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ 1191، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
طوافِ عمرہ کے تمام یا اکثر پھیرےکیےبغیر احرام ختم نہیں ہوگا،اور اس کا کوئی بدل نہیں،جیسا کہ علامہ ابو الحسن علاء الدین علی بن بلبان فارسی حنفی رحمۃ اللہ علیہعمدۃ السالک فی المناسک میں لکھتے ہیں:’’لو ترک اکثر طواف العمرۃ أو کلہ،وسعی بین الصفا والمروۃ ورجع الی اھلہ فھو محرم أبداً،ولا یجزئ عنہ البدل‘‘ ترجمہ: اگر کسی نے عمرے کے طواف کے اکثر یا تمام پھیرے ترک کردیے اور صفا مروہ کی سعی کرلی اور اپنے گھر لوٹ گیا، تو وہ ہمیشہ حالتِ احرام میں رہے گا،اور اس کے بدلے کوئی چیز کافی نہ ہوگی۔(عمدۃ السالک فی المناسک،الباب الرابع عشر فی الجنایات،صفحہ525،دار اللباب)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم