
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی )
سوال
کیا باپ اپنے مال سے اپنے نابالغ بچے کو حج کرواسکتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! باپ اپنے مال سے اپنے نابالغ بچے کو حج کرواسکتا ہے لیکن نابالغ نے حج کیا( یعنی اپنے آپ جبکہ سمجھ دار ہو یا اُس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندھا ہو جب کہ ناسمجھ ہو، بہر حال)اس سے بچے کا فرض حج ادا نہ ہوگا بلکہ یہ اس کانفلی حج شمارہوگا،لہذا بعد میں جب وہ بالغ ہو اور حج کی شرائط پائی جائیں تو دوبارہ حج ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے
” وأما شرائط فرضيته۔۔۔ فمنها: البلوغ، ومنها العقل فلا حج على الصبي، والمجنون؛ لأنه لا خطاب عليهما فلا يلزمهما الحج حتى لو حجا، ثم بلغ الصبي، وأفاق المجنون فعليهما حجة الإسلام، وما فعله الصبي قبل البلوغ يكون تطوعا وقد روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «أيما صبي حج عشر حجج ثم بلغ فعليه حجة الإسلام» “
ترجمہ:حج کے فرض ہونے کی شرائط میں سے بالغ اور عاقل ہونا بھی ہے ،پس بچے اور مجنون پر حج فرض نہیں،کیونکہ یہ مکلف نہیں تو ان پر حج بھی لازم نہیں حتی کہ اگر ان دونوں نے حج کرلیا،پھر بچہ بالغ ہوا اور مجنون کو افاقہ ہوا تو ان پر حجۃ الاسلام یعنی فرض حج کرنا لازم ہوگا اور بلوغ سے پہلے جو بچے نے حج کیا تھا وہ نفل قرار پائے گا ،تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہےکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:بچہ بالغ ہونے سے پہلے دس حج کرے،پھر بالغ ہو تو اس پر حجۃ الاسلام کرنا لازم ہوگا۔(بدائع الصنائع،ج 2،ص 10،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
”لا يجب على الصبي كذا في فتاوى قاضي خان ولو أن الصبي حج إذا قبل البلوغ فلا يكون ذلك عن حجة الإسلام ويكون تطوعا“
ترجمہ: نابالغ پر حج فرض نہیں ایسا ہی فتاوی قاضی خان میں ہے اور اگر بچے نے بلوغت سے پہلے حج کیا تو اس سے فرض حج کی ادائیگی نہیں ہوگی بلکہ یہ نفل حج قرار پائے گا۔ (فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 217 ، دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے" نابالغ نے حج کیا یعنی اپنے آپ جبکہ سمجھ وال ہو یا اُس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندھا ہو جب کہ ناسمجھ ہو، بہر حال وہ حج نفل ہوا، حجۃ الاسلام یعنی حجِ فرض کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ " (بہار شریعت، ج 1،حصہ 6، ص 1037، مکتبۃ المدینہ)
رد المحتار میں ہے:
”الصبي يحج به أبوه وكذا المجنون لأن إحرامه عنهما وهما عاجزان كإحرامهما بنفسهما“
ترجمہ: بچہ کی طرف سے اس کا والد احرام باندھےگا یوہیں مجنون کی طرف سےاس لئے کہ ان کے احرام باندھنے پر قدرت نہ ہونے کی حالت میں والد کا ان کی طرف سے احرام باندھنا ایسا ہی ہے جیسے ان کا خود احرام باندھنا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، ص 459، دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں ہے ” صحتِ اداکے لیے نو شرطیں ہیں کہ وہ نہ پائی جائیں تو حج صحیح نہیں۔۔۔۔ عقل، جس میں تمیز نہ ہو جیسے نا سمجھ بچہ یا جس میں عقل نہ ہو جیسے مجنون۔ یہ خودوہ افعال نہیں کرسکتے جن میں نیت کی ضرورت ہے، مثلاًاحرام یا طواف، بلکہ ان کی طرف سے کوئی اور کرے اور جس فعل میں نیت شرط نہیں، جیسے وقوفِ عرفہ وہ یہ خود کرسکتے ہیں۔“(بہار شریعت، ج 1،حصہ 6، ص 1046، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3810
تاریخ اجراء: 10ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/08مئی2025ء