
مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1881
تاریخ اجراء:30صفرالمظفر1446ھ/05ستمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میں ریاض میں جاب کرتا ہوں، میں نے سعودی گورنمنٹ کےایک ادارے کے ذریعے حج کی رجسٹریشن کی اور حجِ تمتع کیا، اس ادارے نے میری حج کی قربانی دس ذوالحجہ کورمی سے پہلے کر دی اور مجھے بھی بذریعہ میسج اطلاع دی کہ میری قربانی کر دی گئی ہے، کیا اس صورت میں مجھ پر دَم لازم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر واقعی انہوں نے دس ذی الحجہ کو آپ کے رَمی کرنے سے پہلے ہی آپ کی طرف سے قربانی کردی تو اس صورت میں آپ پر ایک دَم یعنی چھوٹے جانور کی قربانی حدودِ حرم میں کروانا واجب ہے کیونکہ متمتع حاجی پر واجب ہے کہ دس ذی الحجہ کو پہلے رمی کرے، پھر قربانی کرے اور پھر حلق یاتقصیر کروائے، جبکہ آپ سے اس واجب کی مخالفت ہوئی ہے، لہٰذا دَم واجب ہوگیا۔
ستائیس واجباتِ حج میں ہے:”قارن و متمتع پہلے دن کی رمی کر کے قربانی کرے گا پھر حلق یا تقصیر سے فارغ ہوگا، اس ترتیب کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔ اگر رمی کے بعد قربانی سے پہلے حلق و تقصیر کر لی یا قربانی پہلے دن کی رمی سے پہلے کر دی یا حلق و تقصیر ان دونوں اعمال میں سے کسی سے پہلے کر لیا، تو ترتیب کا واجب ادا نہ ہوا۔“(ستائیس واجباتِ حج، صفحہ 112۔113، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اسی میں ہے:”قارن یا تمتع والے نے پہلے دن کی رمی، قربانی اور حلق و تقصیر میں ترتیب نہ رکھی یونہی حجِ افراد والے نے رمی اور حلق و تقصیر میں ترتیب نہ رکھی، تو دَم واجب ہوگا۔“(ستائیس واجباتِ حج، صفحہ113، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم