Rush Ki Wajah Se Hajr e Aswad Nazar Na Aye, Tu Istilam Kaise Karen ?

 

رش کی وجہ سے حجرِ اسود نظر نہ آئے، تو استلام کیسے کریں؟

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1874

تاریخ اجراء:15صفرالمظفر1446ھ/21اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   طواف کرتے ہوئے رش زیادہ ہونے کی وجہ سے حجرِ اسود نظر نہیں آرہا ہوتا، اس صورت میں استلام کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   طواف کے شروع ،درمیان اور آخر میں  استلام کرنا سنت ہے لیکن شروع و آخر کے استلام کا مسنون ہونا   درمیان کے استیلام کے مقابلے میں زیادہ مؤکد ہے،استلام کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہو، تو حجرِ اسود کا بوسہ لیا جائےاور اگررش زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو، تو حجرِ اسود کواپنے  ہاتھ سے چھو کر، ہاتھ چوم لے۔  یہ بھی ممکن نہ ہو، تو کسی لکڑی سے اسے چھو کر،اس لکڑی کو چوم لےاور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو اپنے ہاتھ سے حجرِ اسود کی طرف اشارہ کرکے ہاتھوں کوچوم لے۔ آخری صورت میں حجرِ اسود کے بالکل مقابل  کھڑے ہوکر استلام کیا جائے، یہ مقام معتمد افراد سے پوچھ کر یا مستند نشانات کے ذریعے بھی معلو م کیا جاسکتا ہے۔

    اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  جب کعبۃ اللہ شریف سے دور ہوں، تو حجرِ اسود کی طرف رخ کرکے اس انداز سےکھڑے ہوں کہ حجرِ اسود کے دائیں اور بائیں جانب کعبۃ اللہ شریف کے دونوں  کنارے برابر نظر آئیں  ،اس انداز سے ان شاء اللہ بآسانی آپ کا رخ حجرِ اسود کی طرف ہوگا ،پھر ہاتھوں سے اشارہ کرے ہاتھوں کو چوم کر استلام کر سکتے ہیں۔ نیز اگر  کسی ایک جانب دیوار کم یا زیادہ دکھائی دے ،تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ حجرِ اسود سے آگے نکل گئے یا ابھی پیچھے ہیں۔یہ آخری بات  پریکٹیکل کرتے وقت بہت آسانی سے معلوم ہوجائے گی۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”( قوله من الاستلام ) فهو سنة بين كل شوطين كما في غاية البيان ۔وذكر في المحيط والولوالجية : أنه في الابتداء والانتهاء سنة ، وفيما بين ذلك أدب بحر ووفق في شرح اللباب بأنه في الطرفين آكد مما بينهما“یعنی استلام ہر دو طواف کے چکر کے درمیان سنت ہے جیساکہ غایۃ البیان میں ہے اور محیط ووالوالجیہ میں ہے یہ استلام شروع و آخر میں سنت ہے اور ان کے درمیان میں ادب ہے اور شرح اللباب میں یوں تطبیق دی کہ اول و آخر کا استلام  درمیانی استلام سے زیادہ مؤکد ہے۔(رد المحتار،جلد3، صفحہ 584، مطبوعہ:کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم