ایک مسجد کے قریب دوسری مسجد بنانا کیسا؟

ایک مسجد کے قریب دوسری مسجد بنانے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک مسجد کے قریب دوسری مسجد بنانا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد کے قریب دوسری مسجد نمازوں کو قائم کرنے اور اللہ تبارک وتعالی کی رضا کے لیے بنائی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اچھی نیت کے ساتھ بنانا باعث اجر و ثواب ہے۔ ہاں !اگر مسجد بنانے میں کوئی غرض فاسد ہو، اللہ عزوجل کی رضا کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کو متفرق کرنے کے لیے اور محض ضد میں آ کر مسجد بنائی جائے، تو یہ مسجد ضرار کے حکم میں شمار ہوگی، لیکن یہ معاملہ چونکہ نیت پر موقوف ہے اور نیت کا حال ہم سے پوشیدہ ہے، اس لیے جب تک شرعی اعتبار سے واضح نہ ہو جائے کہ بنانے والے بری نیت سے بنائی ہے، تب تک اس پر خود سے کوئی حکم ہرگز نہیں لگا سکتے۔

فتاوی رضویہ میں ہے ”مسجد جبکہ بہ نیت خالصہ بنا ئی جائے تو پہلی مسجد کے کسی قدر قریب ہو کچھ حرج نہیں۔

"لما فی الاشباہ والدر ان لاھل المحلۃ جعلوا المسجد الواحد مسجدین۔"

 (کہ اشباہ اور در میں ہے کہ اہل محلہ کے لئے جائز ہے کہ ایک مسجد کو وہ دو مساجد بنالیں۔ ) (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ72، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور مقام پر ہے ”اگر واقع میں ایسا ہی ہے کہ یہ لوگ یہ مسجد اﷲ کے لئے نہیں بناتے محض ضد اور نفسانیت اور مسجد قدیم کی جماعت متفرق کرنے کے لئے بناتے ہیں تو ضرور وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ86، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4445

تاریخ اجراء : 26جمادی الاولی1447 ھ/18نومبر2025 ء