دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے کل نمازِعصر کی پہلی رکعت میں ”سورۃ الکافرون“ کی قراءت کی، اس کی تین آیتیں پڑھیں، پھر وقف کرنے کے بعد جب قراءت کرنے لگا ،تو چوتھی آیت
وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ
بھول گئی، پھر میں نے اس کے بعد والی دو آیتیں پڑھ کر رکوع کر دیا ،لیکن سجدہ سہو کے بغیر ہی نماز مکمل کر لی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری نماز ہو گئی یا سجدہ سہو نہ کرنے کی وجہ سے نماز کا اعادہ واجب ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کی نماز ہوگئی، اس کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ دورانِ قراءت درمیان سے کسی آیت کے رَہ جانے سے نماز فاسد ہونے یا نہ ہونے کے متعلق اصول یہ ہے کہ اگر رَہ جانے والی آیت سے پہلے وقف کیا ہو، تو اس صورت میں نماز ہوجاتی ہے، اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا ،لیکن اگر وقف نہ کیا ہو، تو معنی کے فاسد ہونے سے نماز فاسد ہو گی، ورنہ نہیں۔ چونکہ صورتِ مسئولہ میں آپ نے رہ جانے والی آیت سے پہلے وقف کیا تھا اور اس کے بعد آیت چھوٹ گئی، لہٰذا اس صورت میں نماز ہو گئی۔
اس نماز کو سجدہ سہو کیے بغیر مکمل کرنے کے باوجود دوبارہ نہ پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ نماز کا اعادہ صرف اسی وقت لازم ہوتا ہے، جب عمداً کوئی واجب ترک کیا گیا ہو، یا نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو، یا بھول کر واجب ترک ہو گیا ہو اور سجدہ سہو بھی نہ کیا گیا ہو۔ جبکہ سوال میں بیان کردہ صورت میں نماز کے واجب الاعادہ ہونے والے اسباب میں سے کوئی سبب بھی نہیں پایا گیا، کیونکہ آیت کے رہ جانے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب سجدہ سہو واجب ہی نہیں تھا، تو اس کے بغیر نماز درست ہو گئی۔
سورت کے درمیان سے کوئی آیت رَہ جائے ،تو نماز کے فساد و عدم فساد کے اصول کے متعلق فتاوی عالَم گیری میں ہے:
لو ذكر آیة مكان آیة ان وقف وقفا تاما ثم ابتدا بآیة اخری او ببعض آیة لا تفسد۔۔۔اما اذا لم یقف و وصل ان لم یغیر المعنی۔۔۔لا تفسد اما اذا غیر المعنی۔۔۔تفسد عند عامة علمائنا و هو الصحیح
ترجمہ: اگر ایک آیت کی جگہ دوسری آیت پڑھی اور (پہلی آیت پڑھ کر)وقف تام کیا ، پھر دوسری آیت یا کسی آیت کا بعض حصہ پڑھا ، تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔۔۔ البتہ اگر (پہلی آیت پڑھ کر) وقف نہیں کیا اور دونوں کو ملا کر پڑھا، پھر اگر معنی تبدیل نہ ہوئےہوں۔۔۔ تو نماز فاسد نہیں ہو گی ، لیکن اگر معنی تبدیل ہوگئے۔۔۔ تو ہمارے اکثر علما کے نزدیک نماز فاسد ہوجائے گی اور یہی صحیح ہے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 80 - 81، مطبوعہ کوئٹہ)
اس اصول کی امثلہ کے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”ایک آیت کو دوسری کی جگہ پڑھا، اگر پورا وقف کرچکا ہے، تو نماز فاسد نہ ہوئی، جیسے
وَالْعَصْرِ﴿۱﴾اِنَّ الْاِنْسَانَ
پر وقف کر کے
اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ
پڑھا، یا
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
پر وقف کیا، پھر پڑھا
اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ﴿۶﴾
نماز ہوگئی اور اگر وقف نہ کیا ، تو معنی متغیر ہونے کی صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی، جیسے یہی مثال ، ورنہ نہیں۔“(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 556، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
سورت کے درمیان سے کوئی آیت رہ جائے، تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اعادہ بھی لازم نہیں، جیساکہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) سے سوال ہوا کہ ”زید نماز پڑھا رہا تھا سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ یسین شروع کردی اور
وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ
پڑھ کر
فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ
چھوڑدی اور
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى
سے شروع کردیا اور پھر سجدہ سہو بھی نہیں کیا اور نماز بھی نہیں دہرائی، تو کیا اس صورت میں نماز درست ادا ہوئی یا نہیں؟“ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جواباً لکھتےہیں: ”نماز صحیح ہے، اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہ تھا۔“ (فتاوٰی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 283-282، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9576
تاریخ اجراء: 29 ربیع الثانی 1447ھ/23 اکتوبر 2025ء