تسبیح بھول کر رکوع میں رکنے والے کی نماز کا حکم؟

رکوع میں تسبیح سے پہلے ایک رکن کی مقدار خاموش رہنے سے نماز کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر   کوئی  نمازی  رکوع میں جاکر  سوچ  میں پڑجائے  جس  کے سبب تسبیحات  پڑھنا  بھول جائے  اور تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار  خیالوں میں گم رہے اور اس کے   بعد  یاد آنے  پر  فوراً رکوع کی تسبیحات پڑھ کر  رکوع مکمل  کرے تو کیا ایسے شخص کی نماز درست  ہوجائے گی   یا    رکوع میں اس قدرسوچنے اور  خاموش رہنے کے سبب   نماز میں کوئی کمی ہوجائے گی ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بیان  کردہ  صورت میں  اس شخص کی نماز بلا کراہت  درست  ہوجائے  گی ، اس لئے کہ   یہاں رکن کی مقدار  خاموش  رہنے کی وجہ  سے نہ کوئی فرض یاواجب ترک ہوا اور نہ ہی ان   کی ادائیگی میں کوئی  تاخیر واقع ہوئی ہے ، زیادہ سے زیادہ   رکوع کی تسبیحات جو سنت ہیں ان   کی  ادائیگی میں تاخیر ہوئی اور سنن میں تاخیر تو کجا ان کے ترک سے بھی نماز نہ مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور نہ ہی سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔

تفصیل :

سجدہ  سہو ، بھول کر   کسی واجب کو ترک کرنے ،  واجب یا فرض کو مؤخر کرنے  یا کسی اجنبی  فاصلے  کے سبب  لازم  ہوتا  ہے،   سنت کو  ترک کرنے یا  اسے مؤخر  کرنے  سے  سجدہ سہو  لازم  نہیں ہوتا۔چنانچہ  ہدایہ میں  ہے :

” لا یجب  الا  بترک واجب  او  تأخیرہ  اوتأخیر رکن  ساھیاً ھذا ھو الاصل  و انما یجب  بالزیادۃ  لانھا  لا تعریٰ  عن تأخیر رکن  او ترک واجب 

یعنی:  سجدہ  سہو   اسی وقت لازم ہوتا ہے جبکہ بھولے سے واجب   ترک  ہو جائے  یا  واجب یا رکن میں تاخیر ہوجائے  ،یہی اصول ہے  ،البتہ  اضافےکے سبب بھی  سجدہ سہو لازم ہوتا  ہے ،کیونکہ وہ   رکن کی تاخیر یا واجب  کے ترک سے خالی  نہیں ہوتا ۔(  ھدایہ  مع فتح القدیر ، جلد 1 ، صفحہ 519  ، طبع:  بیروت ) 

بحرالرائق میں ہے:

”قيد بترك الواجب لأنه لا يجب بترك سنة كالثناء والتعوذ والتسمية وتكبيرات الركوع والسجود وتسبيحاتها “

یعنی: ترک واجب کے  ساتھ سجدہ سہو کو  مقید کیا  ،کیونکہ  سنت ترک کرنے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا،جیسا کہ ثناء ،تعوذ،تسمیہ ،تکبیرات رکوع وسجود اور ان کی تسبیحات  کو ترک کرنا ۔(البحرالرائق،جلد2،صفحہ106،طبع: بیروت )

اور نماز  میں  کچھ  سوچنا یا خیالات میں ڈوبنا بھی   اسی وقت   موجِب سجدہ سہو ہوتا ہے  جبکہ اس کے سبب ترکِ واجب لازم آئے یا تاخیر رکن یا واجب ہو ، چنانچہ منیۃ المصلی مع التعلیق المجلی  میں ہے،

وعبارۃ المنیۃ بین القوسین : ”(الاصل فی التفکر ان منعہ  عن اداء رکن  او واجب  یلزمہ  السھو )اختلف في التفكر الموجِب للسهو، فقيل ما لزم منه تأخير الواجب أو الركن عن محله بأن قطع الاشتغال بالركن أو الواجب قدر أداء ركن وهو الأصح  کما  فی رد المحتار “ 

یعنی :(تفکرمیں اصول یہ ہے کہ اگر تفکر   نے نمازی کو  ادائے رکن یا  واجب سے روکا،تو سجدہ سہو واجب ہوگا )  سوچنا  جو  سجدہ سہو کے لازم ہونے  کا سبب ہے، اس میں اختلاف ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ  جس سے  واجب یا رکن  کو  اس کے محل  سے مؤخر کرنا  لازم آئے جیسا کہ تفکر  کی وجہ سے ایک رکن کی مقدار  ،  فرض  یا واجب کی ادائیگی   میں مشغولیت  سے رک  جائے   اور یہی زیادہ صحیح ہے جیساکہ رد المحتار میں ہے ۔ (التعلیق المجلی  لما فی منیۃ المصلی ، صفحہ 435 ، طبع: ضیاء القرآن )

اور اگر سنن کی ادائیگی میں تاخیر ہو جبکہ رکن یا واجب اپنے محل پر ادا ہو تو اس صورت میں تفکر سے ہر گز سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ ردالمحتار میں  علامہ  شامی  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

 ” الأصل في التفكر أنه إن منعه عن أداء ركن كقراءة آية أو ثلاث أو ركوع أو سجود أو عن أداء واجب كالقعود يلزمه السهو لاستلزام ذلك ترك الواجب وهو الإتيان بالركن أو الواجب في محله، وإن لم يمنعه عن شيء من ذلك بأن كان يؤدي الأركان ويتفكر لا يلزمه السهو. وقال بعض المشايخ: إن منعه التفكر عن القراءة أو عن التسبيح يجب عليه سجود السهو وإلا فلا، فعلى هذا القول لو شغله عن تسبيح الركوع وهو راكع مثلا يلزمه السجود، وعلى القول الأول لا يلزمه وهو الأصح“

ترجمہ : سوچنے میں اصل یہ ہے کہ اگر یہ رکن کی ادائیگی سے مانع ہو،جیسے ایک یاتین آیتوں  کی قراءت ، یارکوع ،سجودسے مانع ہو،یاپھر واجب کی ادائیگی سے مانع ہو، جیسے قعود توسجدہ سہولازم ہوگا،اس لیے کہ یہ چیزترک واجب کولازم کرتی ہے اوروہ رکن یاواجب کواس کے محل میں اداکرنا ہے ،ہاں! اگر سوچنا ان دونوں سے مانع نہ ہو،اس طرح کہ وہ نمازی سوچتے ہوئے ارکان اداکرے ،توسجدہ سہولازم نہیں ہوگا، جبکہ بعض مشائخ نے فرمایاکہ اگرسوچناقراءت یا تسبیح سے مانع ہو،تواس پرسجدہ سہوواجب ہوگا۔اگران سے مانع نہ ہو،توسجدہ سہوواجب نہیں ہوگا، اس قول کی بنیادپر اگرکوئی شخص رکوع کرتے ہوئے رکوع کی تسبیح بھول جاتاہے،تواس پر سجدہ سہوواجب ہوگا،جبکہ پہلے قول کی بنیادپر سجدہ سہولازم نہیں ہوگا، اور یہ  (تسبیح بھولنے کی صورت میں سجدہ سہوواجب نہ ہونے کا)قول اصح ہے۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،جلد2،صفحہ93،طبع: بیروت )

درمنتقیٰ اورحاشیہ طحطاوی علی الدرالمختارمیں ہے:

”تفکر فی صلاتہ ان منعہ عن اداء رکن کقراءۃ آیۃ او رکوع اوسجود اواداءواجب کالقعود یلزمہ السھو، وان لم یمنعہ اومنعہ عن سنۃ کالتسبیح فی رکوعہ لایلزمہ ،ھوالاصح “

یعنی: نماز میں سوچنے لگا ،اگرسوچنا   کسی رکن کے ادا کرنےسے مانع ہو،جیسے آیت کی قراءت یا رکوع وسجودیاکسی واجب سےمانع ہوا،جیسے قعودتوان صورتوں میں سجدہ سہو لازم ہوگا، اگرسوچنارکن کی ادائیگی سے مانع نہیں ہوایاسنت سے مانع ہواجیسے رکوع کی تسبیح، تو سجدہ سہولازم نہیں ہوگا۔یہی قول اصح ہے ۔(الدر المنتقی مع مجمع الانھر،جلد1،صفحہ227،طبع:کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب :مفتی محمد   قاسم عطاری

فتوی نمبر :HAB-0663

تاریخ اجراء :06جمادی الاولٰی1447ھ / 29 اکتوبر 2025ء