دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارےمیں کہ زید ایک صاحبِ ترتیب ہے،اس کی اب تک کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ کچھ دن پہلے اُس سے نمازِ عشاء میں ایک غلطی سرزد ہوگئی، جس کی وجہ سے وہ نماز واجب الاعادہ ہوگئی،لیکن اس نے مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا اعادہ ہی نہیں کیا۔ تفصیل یہ ہے کہ زید نے اپنی تنہا نمازِ عشاء ادا کرتے ہوئے قعدہ اُولیٰ میں تشہد کے بعد بھول کر درودِ پاک پڑھ لیا، اور بعد میں سجدۂ سہو بھی نہیں کیا اور وہ اس کے بعد سے آج تک تمام نمازیں اسی طرح (یعنی بغیر اس نماز عشاء کو دوبارہ پڑھے) پڑھتا رہا۔
اب دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا زید کو اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اُس نمازِ عشاء کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے؟ اور چونکہ وہ صاحبِ ترتیب ہے، تو کیا اُس ایک واجب الاعادہ نماز کی وجہ سے اُس کے بعد والی نمازوں پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زید پر نمازِ عشاء کا اعادہ اب بھی لازم ہے، لہٰذا جتنا جلد ممکن ہو، اسے دوبارہ پڑھ لے۔ لیکن اس واجب الاعادہ نمازِ عشاء کی وجہ سے بعد میں پڑھی جانے والی وقتی نمازوں کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، وہ سب درست شمار ہوں گی۔
تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی نماز میں ایسی غلطی ہو جائے جس کی وجہ سے وہ مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہو جائے، تو اس نماز کا اعادہ بہرحال واجب ہوتا ہے، خواہ وقت کے اندر دوبارہ پڑھی جائے یا وقت گزرنے کے بعد۔ یہی راجح قول ہے، جیسا کہ خاتم المحققین علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ نے منحۃ الخالق اور رد المحتار میں تحقیق فرمائی ہے، اور اسی پر سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے فتاویٰ رضویہ میں فتویٰ دیا ہے۔ لیکن اس واجب الاعادہ نماز کی وجہ سےصاحبِ ترتیب کی وقتی نمازوں کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ یہ جو مسئلہ ہے کہ صاحب ترتیب کیلئے قضا نماز یاد ہوتے ہوئے وقتی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، اس کا تعلق اس فرض نماز سے ہے جس کا فرض ذمہ پر باقی ہو، اب چاہے وہ فرض اعتقادی ہو یا فرض عملی، جبکہ واجب الاعادہ نماز میں اصل فرض ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے، صرف کراہت تحریمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نقصان و کمی کو پورا کرنے کیلئے اس کا اعادہ لازم ہوتا ہے، لہٰذا صاحب ترتیب نے واجب الاعادہ نماز یاد ہوتے ہوئے وقتی فرض نماز پڑھ لی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے جد الممتار میں خاص اسی مسئلہ کی تصریح فرمائی ہے۔
واجب الاعادہ نماز کا اعادہ وقت گزرنے کے بعد بھی لازم و واجب ہے، یہی راجح قول ہے، علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ منحۃ الخالق میں لکھتے ہیں،
و عبارۃ ما بین القوسین من البحر الرائق: ”(فالحاصل أن من ترك واجبا من واجباتها أو ارتكب مكروها تحريميا لزمه وجوبا أن يعيد في الوقت فإن خرج الوقت بلا إعادة أثم ولا يجب جبر النقصان بعد الوقت فلو فعل فهو أفضل) نقل الخير الرملي عن العلامة المقدسي أنه يجب أن لا يعتمد على هذا لما ذكره قريبا من قولهم كل صلاة أديت مع الكراهة سبيلها الإعادة مطلقا ۔۔ظاهر كلامهم يقتضي الوجوب خارج الوقت أيضا ويدل عليه ما قدمناه عن شرح التحرير
ترجمہ: (تو حاصل کلام یہ ہے کہ جس نے واجباتِ نماز میں سے کوئی واجب چھوڑا یا مکروہِ تحریمی فعل کا ارتکاب کیا، تو وقت میں اُس کا اعادہ واجب ہے، اگر وقت گزرگیااور اس نے اعادہ نہ کیا تو وہ گنہگار ہو گا اور وقت کے بعد اُس پر نقصان کی تلافی واجب نہیں ہو گی۔ ہاں! اگر وہ اعادہ کر لے، تو افضل ہے)علامہ خیر الدین رملی علیہ الرحمۃ نے علامہ مقدسی علیہ الرحمۃ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صاحب بحر کے اس قول پر اعتماد نہ کرنا واجب ہے کیونکہ قریب ہی میں فقہاء کرام کا یہ قول گزرچکا ہے کہ ہر وہ نماز جس کو کراہت کے ساتھ ادا کیا گیا ہواس کا حل مطلقاً اعادہ کرنا ہے ،فقہاء کرام کے کلام کا ظاہر یہی تقاضا کرتا ہے کہ وقت نکلنے کے بعد بھی اعادہ واجب ہے اوراس پر وہ کلام بھی دلالت کرتا ہے جس کو ہم نے شرح تحریر کے حوالے سے ذکر کردیا ہے۔ (منحۃ الخالق علی البحر الرائق، ج 02،ص 87،دار الکتاب الاسلامی)
علامہ شامی علیہ الرحمۃ ہی رد المحتار میں لکھتے ہیں:
يكون المرجح وجوب الإعادة في الوقت و بعده، و يشير إليه ما قدمناه عن الميزان
ترجمہ: راجح یہی ہے کہ وقت میں اور اس کے بعد اعادہ واجب ہے اوراسی کی طرف وہ کلام اشارہ کرتا ہے جس کو ہم پہلے میزان سے ذکر کرآئے ہیں۔ (ردالمحتار علی الدر المختار، ج 02، ص 65، دار الفکر، بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اسی قول پر فتوی دیا اور دلیل میں علامہ شامی علیہ الرحمۃ کی اسی عبارت کو ذکر فرمایا، چنانچہ نماز جمعہ میں سجدہ سہو لازم ہو اور جماعت عظیم نہ ہو ، اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں: ”بس جہاں جمعہ بھی جماعت عظیم سے نہ ہوتا ہو بلاشبہ سجدہ کرے، اگر نہ کیا اعادہ کرے، اگر وقت نکل گیا ظہر پڑھ لیں۔ رد المحتار میں ہے: المرجح وجوب الاعادۃ فی الوقت وبعدہ راجح یہی ہے کہ وقت میں اور اس کے بعد اعادہ واجب ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 08، ص 180، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
واجب الاعادہ نماز میں اصل فرض ذمہ سے ساقط ہوچکا ہوتا ہے، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
و كذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم و المختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر و الفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر
ترجمہ: اور اسی طرح ہر اس نماز کو دہرانے کا حکم ہے جس کو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کیا گیا اور مختار قول یہی ہے کہ ترک واجب کی وجہ سے جو نماز دہرائی جائے،وہ نقصان پورا کرنے والی نفل نماز ہے اور فرض تو پہلی نماز سے ساقط ہوچکا تھا کیونکہ فرض متکرر نہیں ہوتا۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ج 01، ص 248، دار الكتب العلمية بيروت – لبنان)
لہٰذا صاحب ترتیب نے واجب الاعادہ نماز یاد ہوتے ہوئے وقتی فرض نماز پڑھ لی تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمۃ جد الممتار میں لکھتے ہیں:
تأخیر الجابر لایکون تأخیر الأصل ،ألا ترٰی أن من أدی صلاۃ الظھر مع کراھۃ التحریم ثم صلی العصر ذاکرا أن علیہ الجبر لم یکن بہ بأس،فاللہ تعالیٰ اعلم
ترجمہ: اصل عبادت میں واقع ہونے والی کمی کو دور کرنے والی شے یعنی اعادہ کو مؤخر کرنے سے اصل کو مؤخر کرنا لازم نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس نے نماز ظہر کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی ہو پھر وہ نماز عصر یہ یاد ہوتے ہوئے ادا کرلے کہ اس پر نماز ظہر کا اعادہ لازم ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ علم والا ہے۔ (جد الممتار علی رد المحتار، التعلیق: 2252، ج 04، ص 326، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0657
تاریخ اجراء: 26ربیع الثانی 1447ھ/20اکتوبر 2025 ء