سنّتِ مُؤکّدہ چھوڑنے کا شرعی حکم

سنّتِ مُؤکّدہ چھوڑنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں عُلَمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ جو شخص ہمیشہ سُنّتِ مُؤکدہ چھوڑ دیا کرے، اُس کے متعلّق شرعی حکم کیا ہے؟ بیان فرمادیں۔

(سائل: قاری ماہنامہ فیضانِ مدینہ)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سُنّتِ مؤکدہ کا ایک آدھ بار ترک کرنا اِساءت یعنی بُرا ہے اور عادتاً ترک کرنا گناہ ہے، لہٰذا جو عادتاً سُنّتِ مُؤکدہ ترک کرتا ہے یا پڑھتا ہی نہیں ضرور گنہگار ہے، اُس پر اِس گناہ کے فعل سے توبہ واجب ہے، آئندہ سُنّتِ مُؤکدہ کی پابندی کا اِلتِزام کرے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2018ء