
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے یہاں مرد جو کماتاہے اور جتنا پیسہ ملتا ہے، وہ سارا گھر خرچ کے لیے اپنی زوجہ کو دے دیتا ہے، تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ پھر قربانی کس کے نام سے ہوگی؟ مرد کے نام سے یا اس کی زوجہ کے؟ کیوں کہ سارا پیسہ تو بیوی کے پاس ہے تو مالک نصاب کون ہوگا؟ مہربانی فرمائے جلد جواب عنایت فرمائیں اور شکریہ کا موقع دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عموماً مرد حضرات اپنی گھر والیوں کو گھر خرچ کے لیے جو پیسے دیتے ہیں، وہ اس کا مالک نہیں بناتے بلکہ گھریلو اور ضروری اخراجات کے لئے دیتے ہیں، ایسی صورت میں جو رقم اخراجات سےبچ جائے وہ شوہر کی ملک ہوگی، اور اس رقم کی وجہ سےشرائط کی موجودگی میں قربانی شوہر پر ہی لازم ہوگی، لہذا وہ اپنے نام سے قربانی کرے گا۔ اور اگر عورت کے پاس اس کے علاوہ کوئی نصاب نہ ہو تو اس پر قربانی لازم نہیں ہوگی۔
اور اگر بالفرض شوہراس رقم کا بیوی کو مالک بنادے اور وہ رقم حاجت اصلیہ سے زائدہو اور رقم اتنی ہو کہ قرض ہو تو اس کو مائنس کرنے کے بعد وہ تنہا یا زوجہ کے دوسرے مال کے ساتھ مل کرنصاب کو پہنچتی ہو تو اس رقم کی وجہ سےبیوی پر قربانی لازم ہوگی،لہذااسی کے نام سے کی جائے گی۔ اور شوہر کے پاس اس کے علاوہ حاجت اصلیہ اورقرض سے فارغ کوئی نصاب نہ ہو تو شوہر پر قربانی لازم نہیں ہوگی۔
فتاوی رضویہ میں ہے "جو کچھ روپیہ زید نے زوجہ اولٰی یا ثانیہ کودیااگر تملیکاً دیا اس کی مالک زوجات ہیں اور اس سے جواسباب خریدا انہیں کاہے اوراگرتملیکاً نہ دیا گھرکے خرچ کے لئے دیا اور عورات کو حسب دستور اسباب خانگی خریدنے کی اجازت دی تو وہ اسباب اور جتنا روپیہ بچاہو سب ملک زید ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 351، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3957
تاریخ اجراء: 27 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 24 جون 2025 ء