کیا اپنی دو بیٹیوں کا عقیہ ایک بکرے میں کرسکتا ہوں؟

 

ایک بکرے میں دو بچوں کا عقیقہ کرنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13226

تاریخ اجراء:28جمادی الثانی1445 ھ/11جنوری 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ہی بکرا اگر دو بیٹیوں کی طرف سے عقیقے میں قربان کیا جائے، تو کیا عقیقہ  ہوجائے گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عقیقہ کے احکام چونکہ قربانی کے احکام ہی کی مثل ہیں، اور قربانی میں چھوٹا جانور  (یعنی بکرا، بکری) دو یا دو سے زیادہ افراد کی طرف سے قربان نہیں ہوسکتا،  چھوٹے جانور میں حصے نہیں ہوسکتے، بالکل  اسی طرح عقیقے کے بکرے میں بھی ایک سے زیادہ حصے نہیں ہوسکتے، لہذا  اگر کسی شخص نے ایک ہی بکرے سے اپنی دو بیٹیوں کا عقیقہ کیا، تو اس صورت میں دونوں بیٹیوں  میں سے کسی ايك  کی بھی عقیقے کی سنت ادا نہ ہوئی۔

   ایک بکری کی قربانی ایک شخص ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ مرقاۃ شرحِ مشکوٰۃ میں ہے :”الغنم الواحد لا یکفی عن اثنین فصاعدا “یعنی دو اور دو سے زیادہ افراد کی طرف سے ایک بکری کفایت نہیں کرتی ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج03 ، ص1079 ، دار الفكر، بيروت)

   بنایہ شرحِ ہدایہ میں ہے : ”و اعلم ان الشاۃ لا تجزئ الا عن واحد  ۔۔۔۔۔و قد روی عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ قال الشاۃ عن واحد“ یعنی   جان لو کہ ایک بکری صرف ایک شخص ہی کی طرف سے کافی ہو گی اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ایک بکری ایک ہی کی طرف سے (جائز) ہے ۔ (البناية شرح الهداية، کتاب الاضحیۃ، ج 12، ص 15-14، دار الكتب العلمية، بيروت، ملتقطاً)

   عقیقہ کے احکام قربانی کی طرح ہیں ۔ جیسا کہ امام ترمذی علیہ الرحمہ سننِ ترمذی میں نقل فرماتے ہیں:قالوا: لايجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحيةیعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ عقیقہ میں وہی بکری ذبح کی جاسکتی ہے  جس کی قربانی جائز ہو۔ (الجامع الصحيح سنن الترمذي، باب من العقیقۃ،  ج04،ص101، مصر)

   مرآۃ المناجیح میں ہے:” عقیقہ کے احکام قربانی کی طرح ہیں کہ عقیقہ کی بکری ایک سال سے کم نہ ہو،گائے دوسال سے اور اونٹ پانچ سال سے،نیز بکری صرف ایک کی طرف سے ہوسکتی ہے،گائے اونٹ میں سات عقیقہ ہوسکتے ہیں،  اس طرح کہ لڑکے کے دو حصے لڑکی کے لیے گائے وغیرہ کا ایک حصہ۔“(مرآۃ المناجیح، ج 06، ص 02، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،  لاہور)

   عقیقے کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمہ فتاوٰی شامی میں نقل فرماتے ہیں:وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى۔یعنی بچہ اور بچی کا عقیقہ ایسی بکری سے ہوسکتا ہے جس کی قربانی جائز ہو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 554، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:” احکام عقیقہ مثل قربانی ہیں، اعضا سلامت ہوں، بکرابکری ایک سال سے کم کی جائز نہیں، بھیڑ ، مینڈھا چھ مہینہ کا بھی ہوسکتا ہے جبکہ اتنا تازہ وفربہ ہو کہ سال بھر والوں میں ملادیں تو دور سے متمیز نہ ہو۔(فتاوٰی  رضویہ ، ج 20 ، ص584 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک  سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”عقیقہ کے احکام مثل اضحیہ ہیں۔ ا س سے بھی مثل اضحیہ تقرب الی اللہ عزوجل مقصود ہوتاہے ۔(فتاوٰی  رضویہ ، ج 20 ، ص501 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   فتاوٰی نوریہ میں ہے:”عقیقہ میں ایک لڑکے کے لیے ایک بکری یا گائے کا ساتواں حصہ جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ ایک لڑکے کے عقیقے میں دو بکریاں یا گائے کے دو حصے چاہیے۔“(فتاوٰی  نوریہ ، ج 03، ص 504، دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پورضلع اوکاڑہ)

   بہارِ شریعت میں ہے :” عقیقہ کا جانور انھیں شرائط کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا قربانی کے لیے ہوتا ہے۔ “   (بہارِ شریعت، ج 03، ص357، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم