Goli Se Mara Hua Janwar Halal Hai Ya Haram?

گولی سے مارا ہوا جانور حلال ہے یا حرام؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-181

تاریخ اجراء:17ذوالحجۃ الحرام1440ھ/19اگست2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ اگر کسی حلال جانورکو چھری سے ذبح کی بجائےاس طرح گولی کے ذریعے مارا جائے کہ گولی چلانے سے پہلےتکبیر پڑھ لی جائے، تو کیا وہ جانور حلال ہوگا؟

سائل:محمدشاہد

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں وہ جانور حلال نہیں ہوگا، کیونکہ عمومی حالات میں پالتو جانور کو گولی کے ساتھ مارا ہو یا شکار کے دوران جانور کوگولی کے ذریعےمارا ہو، بہر صورت جانور حرام ہوگا۔ اس مسئلےکی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ذبح شرعی کی دو صورتیں ہیں:

   (1)ذبح اختیاری:کسی دھاری ر دار چیز کے ساتھ ذبح والے جانور(مثلاً بکری،گائے وغیرہ)کی مقامِ ذبح سے مخصوص رگیں کاٹنایا نحر والے جانور(مثلاًاونٹ) کی محل نحرسےمخصوص  رگیں کاٹناذبح اختیاری کہلاتا ہےجیسے عمومی حالت میں پالتو جانوروں کو ذبح اختیاری کے طور پر ہی ذبح کیا جاتا ہے۔

   (2) ذبح اضطراری: جب ذبح اختیاری ممکن نہ ہو، توجانور کے کسی بھی حصے پر دھاری دارچیزکا وارکرکےاُسے مارنا ذبح اضطراری کہلاتا ہے جیسے شکار یا بعض اوقات پالتو جانور کےوحشی ہوجانے کی صورت میں جانور کوذبح اضطراری کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے۔

   اگر ذبح اختیاری ممکن تھااورگولی کےذریعےجانورماردیا، تووہ جانورحرام ہوگا، کیونکہ جب ذبح اختیاری ممکن ہو، تو ذبح اختیاری ہی ضرور ی ہےاور اس کےبغیرجانور مرگیا، وہ حلال نہیں ہوگا۔

   المبسوط للسرخسی میں ہے: ’’عندتعذر الحل بذکاۃ الاختیار یثبت الحل بذکاۃ الاضطرار‘‘ ترجمہ: جب جانور کو ذبح اختیاری کےساتھ حلال کرنا، ممکن نہ ہو، تب ذبح اضطراری کے ساتھ  اُس جانور کا حلال ہوناثابت ہوگا۔(المبسوط للسرخسی، ج11،ص228، دار المعرفۃ، بیروت)

   البحرالرائق میں ہے: ’’لوترک ذکاتہ مع القدرۃ علیہ یحرم‘‘ ترجمہ:اگر(جانور شکار کیا اور جب قریب پہنچا،تو) ذبح اختیاری ممکن تھا،پھربھی ذبح نہ کیا،تو وہ جانورحرام ہو جائے گا۔(البحرالرائق،ج8، ص262، دارالکتب الاسلامی، بیروت)

   اوراگر ایسی صورت ہوکہ جس میں ذبح اختیاری ممکن نہ ہوجیسے شکار کرنے کی صورت میں، توبھی گولی مارنے سے جانورحلال نہیں ہوگا، کیونکہ گولی کی دھارنہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے شدیددباؤ کی وجہ سے جسم میں داخل ہوکرموت کا سبب بنتی ہے،جبکہ ذبح اختیاری ہو یا اضطراری، بہرصورت ذبح شرعی کے لیےضروری ہے کہ کسی دھاری دار چیز مثلاً چھری وغیرہ سےجانورذبح کیاجائے، اگر کسی ایسی چیز سے ذبح کیا گیا،جس کی دھارنہ ہواوراُس کی دب و ثقل(وزن) کی وجہ سے جانور مرگیا، توجانور حلال نہیں ہوگا۔ جیساکہ کوئی لاٹھی کے وار سے جانور کو ماردے، تو وہ جانور حرام و مردار ہے، لہٰذا اس  صورت میں بھی گولی کی وجہ سے مرنے والاجانورحرام ہوگا۔

   ذبح کے لیےدھاری دارآلہ ہونا ضروری ہے۔چنانچہ اللّٰہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ﴾ ترجمہ کنزالایمان:تم پرحرام ہے مردار اور خون اور سور کاگوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور وہ جو گلہ گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا۔(پارہ6،سورۃ المائدہ،آیت3)

   حضرت سیّدناعدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے معراض (بغیر پَر کے تیر،جس کا درمیانی حصہ موٹا ہوتا ہے)کے شکار سے متعلق پوچھا،تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’مااصاب بحدہ فکلہ ومااصاب بعرضہ فھو وقیذ‘‘ ترجمہ: اُس کی دھار سے اگرجانورمرگیا،تواُسے کھاؤاور اگر(دھار کی بجائے) اُس کی چوڑائی والےحصےکی وجہ سے مرگیا، تو وہ موقوذہ(کے حکم)میں ہے۔(صحیح بخاری،ج2،ص823،مطبوعہ کراچی)

   اللباب فی شرح الکتاب میں ہے: ’’(ومااصاب المعراض بعرضہ لم یؤکل)الجرح لابدمنہ لیتحقق معنی الذکاۃ علی ماقدمناہ(وان)اصاب بحدہ(جرحہ اکل) لتحقق معنی الذکاۃقیدنا بالجرح بالحد لانہ لوجرحہ بعرضہ فمات لم یؤکل لقتلہ بثقلہ‘‘ ترجمہ: ’’معراض کی چوڑائی والے حصے کی وجہ سے جانور مر گیا، تواُسے نہیں کھا سکتے‘‘ ذبح شرعی کے تحقق کے لیےدھاری دار آلے سے زخم لگنا ضروری ہے’’اور اگر اُس کی دھار کی وجہ سے جانور مرا،تواُسے کھا سکتے ہیں‘‘، کیونکہ ذبح شرعی کا معنیٰ متحقق ہوچکا۔ زخم کے لیے دھاری دار چیز کے ساتھ اس لیے مقید کیا،کیونکہ اگر دھار کی بجائے، چوڑائی والا حصہ لگنے سے جانور مرجائے،تواُسے کھانا حلال نہیں، کیونکہ وہ اُس کے ثقل(وزن و دباؤ) کی وجہ سے قتل ہوا۔(اللباب فی شرح الکتاب،ج3،ص221،المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’ آلہ کا حدید یعنی تیز ہونا اگر چہ شرط نہیں، مگر محدد یعنی باڑھ(دھار) دار ہونا کہ قابل قطع وخرق ہو ضرور ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج20،ص344، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   ’’الموقوذۃ‘‘کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’خواہ لاٹھی سے مارا ہو یا گولی سے یا غلہ (مٹی کی گولی)سے، حرام ہے۔‘‘(تفسیر نور العرفان، ص129، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’لایخفی ان الجرح بالرصاص انما ھو بالاحراق والثقل بواسطۃ اندفاعہ العنیف اذالیس لہ حدفلا یحل وبہ افتی ابن نجیم‘‘ ترجمہ: یہ بات پوشیدہ نہیں کہ تانبے کی گولی کا زخم اس کے جلانے اور ثقل(وزن) کی وجہ سے ہے، جو بذریعہ شدید دباؤ کے حاصل ہوتاہے، کیونکہ گولی کی دھار نہیں ہوتی، لہذا شکار حلا ل نہ ہوگا اور اسی کے مطابق علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ نےفتوی دیا۔(رد المحتار، ج10، ص69تا70، مطبوعہ پشاور)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’بندوق کی گولی دربارۂ حلتِ صید حکمِ تیر میں نہیں، اس کا مارا ہوا شکار مطلقاً حرام ہے کہ اس میں قطع وخرق نہیں،صدم ودق وکسر وحرق ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج20،ص343، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بیان کردہ دونوں صورتوں میں اگرگولی لگنے کے بعدجانور زندہ تھا کہ اُسےشرعی طریقہ کار کےمطابق کسی دھاری دار چیزسے ذبح کرلیاگیا،تو وہ جانور حلال ہوگا۔

   چنانچہ حرام جانوروں کوبیان کرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ﴾ ترجمہ کنزالایمان:مگر (حلال جانوروں میں سے مرنے سے پہلے)جنہیں تم ذبح کرلو۔(پارہ6،سورۃ المائدہ،آیت3)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’ اگر ذبح کرلیا اور ثابت ہوا کہ ذبح کرتے وقت اس میں حیات تھی مثلا پھڑک رہا تھا یا ذبح کرتے وقت تڑپا اگر چہ خون نہ نکلا یا خون ایسا دیا جیسا مذبوح سے نکلا کرتاہے، اگر چہ جنبش نہ کی یا کسی اور علامت سے حیات ظاہر ہوئی، تو حلال ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج20، ص345، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم