
مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-162
تاریخ اجراء:41جمادی الثانی1437ھ/42مارچ 2016ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نےگھر میں ہرن پالی ہوئی ہے، اس کی قربانی ہو سکتی ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی صرف گھریلو پالتو جانوروں کی جائز ہے، اس کے علاوہ وحشی جانور جیسے ہرن، جنگلی گائے، بیل اور نیل گائےوغیرہ کی قربانی جائز نہیں، اگرچہ ان کو کسی نے گھر میں پال رکھا ہو۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ”لا یجوز فی الأضاحی شیٔ من الوحشی فإن کان متولداً من الوحشی و الأنسی فالعبرۃ للأم فإن کانت أھلیۃ تجوز و إلا فلا، حتی لو کانت البقرۃ وحشیۃ و الثور أھلیاً لم تجز“ وحشی جانوروں میں سے کسی کی قربانی جائز نہیں، اگر کوئی جانور وحشی اور گھریلو جانور کے ملنے سے پیدا ہوا ہے، تو اعتبار مادہ جانور کا ہے، اگر مادہ گھریلو ہے ،تو قربانی جائز ہے، ورنہ نہیں، حتی کہ اگر گائے جنگلی ہو اور بیل گھریلو ہو، تو ان سے پیدا ہونے والے جانور کی قربانی جائز نہیں۔(فتاوی عالمگیری، ج5، ص367، مطبوعہ کراچی)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:”وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہو سکتی، وحشی اور گھریلو جانور سے مل کر بچہ پیدا ہوا مثلاً ہرن اور بکری سے اس میں ماں کا اعتبار ہے یعنی اس بچہ کی ماں بکری ہے، تو جائز ہے اور بکرے اور ہرنی سے پیدا ہے، تو نا جائز۔“(بہار شریعت، جلد3، حصہ15، ص340، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم