
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے قربانی کے لیے دوبیل خریدے، اس کی نیت یہی تھی کہ وہ خود ان کی دیکھ بھال کرے گا، لیکن فی الحال زید کی کچھ مصروفیت ایسی بن گئی ہے کہ اس کے لیے بیلوں کی دیکھ بھال کرنا کافی مشکل ہے، اب زید عمرو کو اس طور پر بیل دینا چاہتا ہے کہ چارے وغیرہ کے مکمل اخراجات زید ادا کرے گا اور دیکھ بھال کرنے کے بدلے رقم کی بجائے عمرو کو ایک معین بیل میں سے قربانی کے لیے ایک حصہ دے دے گا۔ اس طرح کرنے سے زید کو بھی فائدہ ہو جائے گا کہ اس کی مشکل دور ہو جائے گی اور عمرو کو بھی کہ اسے الگ سے کسی جگہ حصہ ڈالنے کی مشقت برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ زید کا عمرو کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرنا درست ہے یا نہیں، اگر درست نہیں، تو اس کا درست طریقہ کار کیا ہو گا، کیونکہ زید کو ان بیلوں کی دیکھ بھال کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
نوٹ: زید صاحبِ نصاب ہے، ہر سال قربانی کے لیے بیل خریدتا ہے اور بیل خریدتے وقت اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ حصے خود رکھ لوں گا اور کچھ حصے فروخت کر دوں گا۔ اس سال بھی قربانی کے لیے بیل خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ دونوں بیلوں میں سے دو دو حصے خود رکھوں گا اور پانچ پانچ حصے بیچ دوں گا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زید اور عمروکا یوں معاہدہ کرنا کہ عمرو کو بیلوں کی دیکھ بھال کرنے کے بدلے رقم کی بجائے انہی بیلوں میں سے قربانی کے لیے ایک حصہ دیا جائے گا، یہ شرعاً جائز نہیں، کیونکہ یہ قفیز طحان (اجیر نے جو کام کیا ہے، اسی میں سے اس کو اجرت دینا) ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
السنن الکبریٰ للبیہقی، سنن دار قطنی اور مسند ابی یعلی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، وہ فرماتے ہیں:
’’نھی عن عسب الفرس وعن قفیز الطحان‘‘
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی جفتی کی اجرت اور قفیز طحان سے منع فرمایا ہے۔ (مسند ابی یعلیٰ، من مسند ابی سعید الخدری، ج 2، ص 301، مطبوعہ دار المامون، دمشق)
عمدۃ القاری میں قفیز طحان کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے:
’’وتفسر قفیز الطحان :ان یستاجر ثورا لیطحن لہ حنطۃ بقفیز من دقیقہ وکذا اذا استاجر ان یعصرلہ سمسما بمَن مِن دھنہ او استاجر امراۃ لغزل ھذا القطن او ھذا الصوف برطل من الغزل۔۔ و کل ذلک لا یجوز‘‘
قفیز طحان کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے گندم پیسنے کے لیے بیل کرائے پہ لیا اس طور پر کہ اسی آٹے میں سے ایک قفیز اجرت دی جائے گی۔ اسی طرح تِل کا تیل نکالنے کے لیے بیل کرائے پر لیا اس طور پر کہ اسی تیل میں سے ایک مَن اجرت دی جائے یا کسی عورت کو روئی یا اون کاتنے پر اجیر رکھا اس طور پر کہ اسی میں سے ایک رطل کی مقدار اجرت دی جائے گی، تو یہ تمام اجارے ناجائز ہیں۔ (عمدۃ القاری، کتاب المزارعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، ج 12، ص 166، مطبوعہ دار احیاء التراث، بیروت)
اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اجارہ پر کام کرایا گیا اور یہ قرار پایاکہ اسی میں سے اتنا تم اجرت میں لے لینا، یہ اجارہ فاسد ہے مثلاً کپڑا بننے کے لیے سوت دیا اور یہ کہہ دیا کہ آدھا کپڑا اجرت میں لے لینا یا غلہ اٹھا کر لاؤ، اس میں سے دو سیر مزدوری لے لینا یا چکی چلانے کے لیے بیل لیے اور جو آٹا پیسا جائے گا، اس میں سے اتنا اجرت میں دیا جائے گا، یونہی بھاڑ میں چنے وغیرہ بھنواتے ہیں اور یہ ٹھہرا کہ ان میں سے اتنے بھنائی میں دیے جائیں گے، یہ سب صورتیں ناجائز ہیں ۔‘‘ (بھارِ شریعت، ج 3، ص 149 تا 150، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ زید بیلوں کی دیکھ بھال کرنے کے بدلے میں عمرو کو بطورِ اجرت انہی بیلوں میں سے ایک حصہ نہ دے، بلکہ عمرو کے ساتھ کچھ رقم بطورِ اجرت طے کر لےمثلاً عمرو سے یوں کہے کہ تم اتنے دنوں تک بیلوں کی دیکھ بھال کرو، اس کے بدلے میں تمہیں اتنی اجرت دی جائے گی، عمرو اسے قبول کرے اور اسی اجرت کے بدلے میں بیلوں کی دیکھ بھال کرتا رہے، پھرجب مقررہ مدت پوری ہوجائے، تو زید سے طے شدہ اجرت لے لے یا اگر دونوں چاہیں، تو باہمی رضا مندی سے اس کے بدلے میں انہی بیلوں میں سے ایک حصہ کی قربانی کے لیے خرید و فروخت کر لیں، لیکن بعد میں یوں کرنا پہلے سے طے نہ ہو، بلکہ طے صرف اجرت ہی کی جائے۔
اجرت پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کے بدلے میں کوئی چیز خریدنا، جائز ہے۔ چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے:
’’استاجر الرجل دارا شھورا مسماۃ باجر معلوم، ثم اراد رب الدار ان یشتری من المستاجر بالاجر شیئا قبل القبض جاز‘‘
ترجمہ: ایک شخص نے معین اجرت کے بدلے میں چند مخصوص ماہ کے لیے گھر کرائے پہ لیا، پھر مالک مکان نے کرائے کے بدلے میں کرایہ دار سے کوئی چیز خریدنے کا ارادہ کیا، تو یہ جائزہے۔ (محیطِ برھانی، کتاب الاجارات، الفصل الرابع و الثلاثون، ج 9، ص 380، مطبوعہ کوئٹہ)
نوٹ: یہ بات یاد رہے کہ یہاں زید کو ان بیلوں میں سے کوئی حصہ قربانی کے لیے فروخت کرنے کی اجازت سوال میں بیان کردہ وضاحت کے پیش نظر دی گئی ہے، ورنہ اگر قربانی کے لیے بڑا جانور خریدنے والا صاحبِ نصاب نہ ہو، یا صاحبِ نصاب تو ہو، لیکن اس نے پورا جانور خود قربانی کرنے کے لیے خریدا، تو پھر اس جانور میں سے کوئی حصہ دوسرے کو قربانی کے لیے بیچنے کے احکام جدا ہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-6232
تاریخ اجراء: 19 ذو القعدۃ الحرام 1440ھ / 23جولائی 2019ء