
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-170
تاریخ اجراء:27ذیقعدہ 1438ھ/20اگست2017ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایسا جانور جس کا کان لمبائی میں چرا ہوا ہو، لیکن بدن سے اترا ہو ا نہ ہو، اس کی قربانی کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایسا جانور جس کا کان چرا ہوا ہو، لیکن بدن سے اترا ہو ا نہ ہو اس کی قربانی کرنا، جائزتو ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی نہ کی جائے، بلکہ ایسے جانور کی قربانی کی جائے جو ہر طرح کے عیب سے پاک ہو۔ جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے :’’تجزیئ الشرقاء وھی مشقوقۃ الاذن طولا والمقابلۃ ان یقطع من مقدم اذنھا ولایبان بل یترک معلقا والمدابرۃ ان یفعل ذلک بمؤخر الاذن من الشاۃ وما روی أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی أن یضحی بالشرقاء والمقابلۃ والمدابرۃ والخرقاء فالنھی فی الشرقاء والمقابلۃ والمدابرۃ محمول علی الندب‘‘ ترجمہ: شرقاء کی قربانی جائز ہے اور اس سے مراد وہ جانور ہے جس کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں اور مقابلہ (کی بھی جائز ہے اور یہ) وہ جانور ہے جس کے کان کا اگلا کچھ حصہ کٹا ہو، لیکن جدا نہ ہو، بلکہ لٹکا ہوا ہو اور مدابرہ (کی بھی جائز ہے اور یہ) وہ بکری ہے جس کے کان کا پچھلا حصہ اسی طرح کٹا ہوا ہویعنی جدا نہ ہوا ہو ساتھ لٹک رہا ہو اور جو حدیث مبارک میں مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے الشرقاء والمقابلۃ والمدابرۃ والخرقاء کی قربانی سے منع فرمایا ہے، تونبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا الشرقاء والمقابلۃ و المدابرۃ کی قربانی سے منع کرنا یہ استحباب پر محمول ہے(یعنی ان کی قربانی نہ کرنا مستحب ہے)۔(فتاوی ہندیہ، ج5، ص 298، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم