Mayyat Ki Taraf Se Ki Gai Qurbani Ke Gosht Ka Hukum

میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے گوشت کا حکم

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-174

تاریخ اجراء:03صفرالمظفر1437ھ/16نومبر2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اپنی قربانی کے علاوہ جوقربانی کسی میت مثلاوالدین وغیرھماکی طرف سے کی جاتی ہے، توکیااس کاگوشت خودبھی کھاسکتے ہیں یاسب صدقہ کرناواجب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کی طرف سے جوقربانی کی جاتی ہے، اس میں بھی اپنی قربانی کی طرح تین حصے کرناافضل ہے، ایک حصہ فقراء و مساکین کے لیے، دوسرا حصہ اپنے دوست واحباب اور رشتہ داروں کے لیےاور تیسرا اپنے گھر والوں کے لیے، البتہ اگرسارا رکھ لے توبھی جائزہے، ہاں اگرمیت نے فوت ہونے سے پہلے وصیت کی تھی، توساراصدقہ کردے، خودنہ کھائے،جیساکہ علامہ محمدامین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں: ’’من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع فی أضحیۃ نفسہ من التصدق والأکل والأجرللمیت والملک للذابح۔قال الصدر: و المختار أنہ ان بأمرالمیت لایأکل منھاوالایأکل‘‘ ترجمہ:جس نے میت کی طرف سے قربانی کی توصدقہ اورکھانے میں اپنی ذاتی قربانی والامعاملہ کیاجائے اوراجروثواب میت کے لیے ہوگااورملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی اور صدر الشریعہ نے فرمایاکہ مختاریہ ہے کہ اگرمیت کی وصیت پرقربانی کی توخودنہ کھائے، ورنہ کھاسکتاہے۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، ج09، ص540، مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے اسی طرح کاایک سوال کیاگیاکہ منجانب میت(میت کی طرف سے) جوقربانی دی جائے اس گوشت کوکس طرح تقسیم کیاجائے؟ تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا: ’’اس کے بھی یہی حکم ہیں جواپنی قربانی کے، کہ کھانے، کھلانے، تصدق، سب کااختیارہےاورمستحب تین حصے ہیں ایک اپنا، ایک اقارب،ایک مساکین کا، ہاں اگرمیت کی طرف سے بحکم میت کرے، تو وہ سب تصدق کی جائے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج20، ص455،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم