گائے کی آنکھ میں موتیا ہو تو قربانی کا حکم

گائے کی ایک آنکھ میں موتیا ہو تو اس کی قربانی کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

گائے کی ایک آنکھ میں موتیا ہو، تو اس کی قربانی کا حکم کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

موتیا سے آنکھوں کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے، اور اگر یہ زیادہ ہو تو اس کی وجہ سے بسا اوقات بینائی مکمل طور پر ختم بھی ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر موتیا کی وجہ سے اس آنکھ کی بینائی بالکل ختم ہو گئی یا ایک تہائی سے زیادہ ختم ہو گئی، تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اور اگر بینائی ایک تہائی، یا اس سے کم ختم ہوئی ہے تو اس صورت میں اس کی قربانی جائز ہے، اور کتنی بینائی کم ہے، اس کوپہچاننے کا فقہائے کرام نے کتابوں میں طریقہ بیان فرمایا ہے، جو نیچے بہارشریعت کے حوالے سے درج ہے، وہاں سے اچھی طرح سمجھ لیاجائے۔

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے

"(و مقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها"

ترجمہ: کان یا دم کا اکثر حصہ کٹا ہوا ہو یا پھر آنکھ کے اکثر حصہ کی روشنی چلی گئی ہو (تو ایسے جانو رکی قربانی جائز نہیں)۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے

"و الصحیح انہ الثلث و ما دونہ قلیل و ما زاد علیہ کثیر"

ترجمہ: اور صحیح یہ ہے کہ تہائی اور اس سے کم قلیل ہے اور تہائی سے زیادہ کثیر ہے۔ (الدر لمختار مع رد المحتار، کتاب الاضحیۃ، جلد 6، صفحہ 232،324، دار الفکر، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی اوس کی بھی قربانی ناجائز ہے اگر دونوں آنکھوں کی روشنی کم ہو تو اس کا پہچاننا آسان ہے اور صرف ایک آنکھ کی کم ہو تو اس کے پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو ایک دو دن بھوکا رکھا جائے پھر اوس آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے جس کی روشنی کم ہے اور اچھی آنکھ کھلی رکھی جائے اور اتنی دور چارہ رکھیں جس کو جانور نہ دیکھے پھر چارہ کو نزدیک لاتے جائیں جس جگہ وہ چارے کو دیکھنے لگے وہاں نشان رکھ دیں پھر اچھی آنکھ پر پٹی باندھ دیں اور دوسری کھول دیں اور چارہ کو قریب کرتے جائیں جس جگہ اس آنکھ سے دیکھ لے یہاں بھی نشان کر دیں پھر دونوں جگہوں کی پیمائش کریں اگر یہ جگہ اوس پہلی جگہ کی تہائی ہے تو معلوم ہوا کہ تہائی روشنی کم ہے اور اگر نصف ہے تو معلوم ہوا کہ بہ نسبت اچھی آنکھ کی اس کی روشنی آدھی ہے۔" (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 341، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3941

تاریخ اجراء: 22 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 19 جون 2025 ء