Prize Bond Ki Inami Raqam Se Qurbani Ya Naik Kam Karna Kaisa?

پرائز بانڈز کے انعام سے قربانی وغیرہ نیک کام کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-159

تاریخ اجراء:05 ذوالقعدۃ الحرام 1440ھ /09جولائی 2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حکومت پاکستان کے جاری کردہ پرائز بانڈز جائز ہیں یا نہیں؟ اگر جائز ہیں تو قرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والی رقم سے حج، عمرہ، مسجد کی تعمیر یا قربانی وغیرہ نیک کام کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چالیس ہزار روپے والا جو پریمیم پرائز بانڈگورنمنٹ نے جاری کیا ہے،وہ سودی ہے اور ناجائز ہے، جب کہ اس کے علاوہ  آج کل رائج عام پرائز بانڈز خریدنا، پاس رکھنا، ان کی خرید و فروخت کرنااور اس پرقرعہ اندازی کے ذریعے نکلنے والی رقم لینا شرعاجائز ہےکہ یہ رقم تحفہ اور انعام ہے، یہ جوا اور سود نہیں ہےاور سود کے حکم میں بھی نہیں ہے، لہذا اس رقم کو خود اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں اور اس کو کسی بھی جائز کام  مثلاً حج، عمرہ، مسجد کی تعمیر اور قربانی وغیرہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔

   یہ جوئے کے حکم میں اس لیے نہیں کہ خریدار نے جوپرائز بانڈ خریدا ہے، اس میں اس کی اصل رقم ڈوبنے کا ضعیف سا بھی اندیشہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مالک جب چاہے، اس کو اپنی ضرورت کے وقت بیچ سکتا ہے، خواہ قرعہ میں نمبر آئے یا نہ آئے اور جوایہ ہوتا ہےکہ اس میں اپنی رقم ڈوبنےیا دوسرے کی رقم اچانک ملنے کا اندیشہ ہو۔

   چنانچہ معجم لغۃ الفقہاء میں جواکی تعریف یوں کی گئی ہے: ”تعلیق الملک علی الخطر  والمال من الجانبین“ یعنی اپنی ملکیت کو خطرے میں ڈالنا، اس حال میں کہ مال دونوں طرف سے ہو۔(معجم لغۃ الفقہاء، صفحہ368)

   اور یہ سوداس لیے نہیں ہے کہ سود دو صورتوں میں ہوتا ہے، ایک قرض کی صورت ہے اور دوسری جنس و قدر والی اشیاء کی باہمی خریدوفروخت والی صورت ہےاور یہاں انعام میں دونوں میں سے کوئی صورت بھی نہیں۔

   ہدایہ میں ہے: ”ان الربا ھو الفضل المستحق لأحد المتعاقدین فی المعاوضۃ الخالی عن عوض شرط فیہ“ یعنی سود متعاقدین میں سے کسی ایک کے لیے عقد سے ثابت ہونے والی اس مشروط زیادتی کو کہتے ہیں جو عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ، جلد3، ص61، مطبوعہ دارالنفائس، ریاض)

   علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پرائز بانڈ کے بارے میں فرماتے ہیں:”پچاس روپے، سوروپے، پانچ سو روپے یا ایک ہزار روپے کے پرائز بانڈخریدنا اور ان پر انعام لینا جائز ہے۔ شریعت نے حرام مال کی کچھ صورتیں مقرر کی ہیں جو یہ ہیں: (1) کسی کا مال چوری، غصب، ڈکیتی یا رشوت کے ذریعے لیا جائے، (2) جوئے میں مال حاصل کیا جائے، (3) سود میں لیا جائے، (4) اور یہ کہ بیع باطل کے ذریعے لیا جائے، پرائز بانڈ میں ان میں کوئی ایک بھی صورت نہیں۔“

   آخر میں فرماتے ہیں:”خلاصہ یہ ہے کہ انعامی بانڈمیں زیادت (اضافہ)مشروط نہیں، لہذا سود نہیں  ہے اور پیسے میں کمی نہیں ہوتی، لہذا جوا نہیں ہےاور لینے والا اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دے دے، وہ جائز ہےاور اس کے لیے قرعہ اندازی کرنا بھی جائز ہے، تو انعامی بانڈ کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے“۔(ملخصا از وقار الفتاوی جلد 1 ص 229 تا 227 ناشربزم وقار الدین کراچی)

   البتہ چالیس ہزار والا پریمیم پرائز بانڈ  سرا سر سودی بانڈ ہے، کیونکہ یہ بانڈ قرض کی رسید ہےاور اس پر ملنے والا ششماہی یا سہ ماہی نفع قرض پر مشروط نفع ہےاور حدیث مبارک کے مطابق قرض پر ملنے والا مشروط نفع سود ہے، اس لیے اس پریمیم بانڈ کا خریدنا، بیچنا اور اس پر ملنے والا سہ ماہی یا ششماہی نفع لینا نا جائز و حرام اور سود ہےاور سود کی حرمت قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔

   قرض پر نفع سود ہے۔چنانچہ کنز العمال میں حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ’’کل قرض جر منفعۃ، فھو ربا‘‘ جو قرض نفع کھینچے، وہ سود ہے۔(کنز العمال، کتاب الدعوی، الباب الثانی فی ترہیب عن استقراض، جلد6، صفہ238، بیروت)

   سیدی اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:’’بربنائے قرض کسی قسم کا نفع لینا مطلقاً سود و حرام ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ، جلد25، ص223، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   اور سود کی حرمت قرآن عظیم میں واضح طور پر موجود ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ ترجمہ کنز الایمان: اللّٰہ نے حلال کیا بیع کواور حرام کیا سود۔‘‘(پارہ 3، سورۃ البقرہ، آیت 275)

   نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سود لینے اور دینے والےپر لعنت فرمائی، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:’’لعن رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ، وقال ھم سواء‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سود لینے والے، دینے والے، اسے لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا: یہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ و المزارعۃ، باب الربا، جلد2، صفحہ27، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم