Afzal Qubani: 45000 Ka 1 Bakra Ya Itni Hee Qeemat ke 3 Bakre

قربانی میں 45 ہزار کا ایک موٹا تازہ بکرا افضل ہے یا 45 ہزار کے 3 بکرے کرنا افضل ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-161

تاریخ اجراء:30ذیقعدہ 1438ھ/23اگست2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بکرا جس کی قیمت 45ہزار روپے ہے اور 3بکرے جن میں سے ہر ایک کی قیمت 15،15ہزار روپے ہے ان 3بکروں کی مجموعی مالیت 45ہزار روپے بنتی ہے، جبکہ45ہزار والا بکرا 15ہزاروالے بکروں کی بنسبت موٹا، فربہ اورخوبصورت ہے۔

   اس بارے میں سوال یہ ہے کہ ایک شخص کااپنی طرف سے 45ہزار کے صرف ایک بکرے کی قربانی کرنا افضل ہے یا 45ہزار کے 3بکروں کی قربانی کرنا افضل ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت مطہرہ میں قربانی کے جانور میں افضیلت کامدار تعداد پر نہیں، بلکہ قیمت اور گوشت کے اعتبار سے اعلیٰ ہونے پر ہے یعنی اس کی قیمت اور گوشت دوسروں کی بنسبت مقدار میں زیادہ ہو، لہذا صورت مسؤلہ میں جس جانورکی قیمت 45ہزار ہے اور دوسروں کی بنسبت موٹا اور فربہ ہے، اس کی قربانی کرنا 15,15ہزار کے تین جانورں کی قربانی کرنے سے افضل ہے۔

   کس طرح کے جانور کی قربانی کرنا افضل ہے اس بارے میں حدیث پاک میں ہے: ’’إن أفضل الضحایا أغلاھا وأسمنھا‘‘ یعنی: قیمت اور گوشت کے اعتبار سے اعلیٰ جانور کی قربانی کرنا افضل ہے۔(المستدرک للحاکم، ج4، ص257، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   علامہ عبد الرؤف المناوی اس حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے ارشاد فر ماتے ہیں: ’’(ان أفضل الضحایا أغلاھا) أی ارفعھا ثمنا (واسمنھا) أکثرھا شحما ولحما فالأسمن أفضل من العدد‘‘ یعنی: اغلاھا کا مطلب یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے زیادہ ہو اور اسمنھا کا مطلب یہ ہے کہ گوشت اور چربی کے اعتبار سے زیادہ ہو اور موٹا ور فربہ ہونا تعداد سے افضل ہے۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر، ج1، ص312، مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)

   امام نووی علیہ الرحمۃ  شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’فإن التضحیۃ بشاۃ سمینۃ أفضل من التضحیۃ بشاتین دونھا فی السمن‘‘ یعنی: ایک موٹی اور فربہ بکری کی قربانی کرنا ان دو بکریوں کی قربانی سے افضل ہے ،جو اس سے موٹے اور فربہ ہونے میں  کم ہو۔(شرح النووی علی مسلم، ج2، ص79، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

   ایک جانور جو دو جانوروں کی بنسبت اعلیٰ ہو اس کی قربانی کے افضل ہونے کے بارے میں محیط البرہانی میں ہے: ’’شراء الأضحیۃ بثلاثین درھماً شاتان أفضل من شراء واحدۃ قال:وشراء الواحدۃ بعشرین أفضل من شراء شاتین بعشرین لأن بثلاثین درھماً توجد شاتان علی ما یجب من کمال الاضحیۃ فی السن والکبر، ولا یوجد بعشرین کذلک حتی لو وجد کان شراء الشاتین أفضل، ولو لم یوجد بثلاثین کذلک کان شراء الواحدۃ أفضل‘‘ یعنی: قربانی کے لیے دوبکریاں تیس درہم کی خریدنا ایک بکری خریدنے سے افضل ہے اورکہا کہ بیس درہم کی ایک بکری خریدنا ،بیس درہم کی دو بکریاں خریدنے سے افضل ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ تیس درہم والی دوبکریوں  سے عمر اور بڑے ہونے کی وجہ سے قربانی کی ادائیگی کمال طریقے سے ہوگی بنسبت بیس درہم والی ان دوبکریوں سے جو ان صفات پر نہیں۔ یہاں تک کہ مذکورہ صفات اگر بیس درہم والی ان دوبکریوں میں پائی جائیں تو یہ افضل ہوجائیں گی اور اگرمذکورہ صفات تیس درہم والی بکریوں میں بھی نہ پائی جائیں تو بیس درہم والی ایک بکری کی قربانی کرنا افضل ہوگا۔(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ج6، ص94،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم