
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر کوئی مسلمان، عاقل، بالغ، صاحب نصاب نہیں ہے لیکن اپنی خوشی سے جیسے بھی کرکے قربانی کا جانور خرید لیتا ہے، اور پھر عید سے دو دن پہلے اس کا جانور چوری ہو جاتا ہے تو اب وہ کیا کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا، پھرعیدسے پہلے وہ چوری ہو گیا، تو اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے
"و إن كان معسرا فاشترى شاة للأضحية فهلكت في أيام النحر أو ضاعت سقطت عنه و ليس عليه شيء آخر لما ذكرنا أن الشراء من الفقير للأضحية بمنزلة النذر فإذا هلكت فقد هلك محل إقامة الواجب فيسقط عنه"
ترجمہ: اگر کسی فقیر نے قربانی کےلیے بکری خریدی، اور وہ ایام نحر میں ہلاک ہو گئی یا گم ہو گئی ہو تو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی، اور اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا؛ کیونکہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ فقیر کی طرف سے قربانی کےلیے جانور خریدنا بمنزلہ نذر کے ہوتا ہے، تو جب وہ ہلاک ہو گیا تو واجب کو ادا کرنے کا محل ہی فوت ہو گیا تو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 66، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3935
تاریخ اجراء: 19 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 16 جون 2025 ء