قربانی کے پائے ایک ماہ بعد کھانے سے متعلق حدیث پاک کی وضاحت

قربانی کے پائے ایک ماہ بعد کھانے سے متعلق حدیث پاک کی وضاحت

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ ایک حدیث پاک ہے کہ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے قربانی کےگوشت کے بارے میں پوچھنے پر بتایا:ہم قربانی کے پائے رکھ لیا کرتے تھے، پھر ایک ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کوتناول فرماتے یعنی کھاتے ۔اس کی وضاحت ارشاد فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ حدیث پاک مختلف کتب حدیث میں موجود ہے،بعض روایات میں دس دن بعد،بعض میں پندرہ دن بعد اور بعض  میں ایک مہینے بعد پائے کھانے کا ذکر ملتا ہے۔حدیث پاک کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے  سوال کیا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا  ہے؟تو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے جواب میں  ارشاد فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو رکھنے اور کھانے سے پہلے منع فرمایاتھا،مگر  بعد میں اس کی اجازت عطا فرما دی۔پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس  کے جائز ہونے پر بطورِ دلیل اپنا عملِ مبارک  بیان کیا کہ ہم قربانی کے جانور کے  پائے کو سنبھال کر رکھ لیتے تھے اور پھر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسے ایک مہینے بعد کھاتے تھے۔

جامع   ترمذی کی حدیث مبارک ہے:

’’عن عابس بن ربيعة، قال: قلت لأم المؤمنين: أكان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ينهى عن لحوم الأضاحي؟ قالت: «لا، ولكن قل من كان يضحي من الناس فأحب أن يطعم من لم يكن يضحي، ولقد كنا نرفع الكراع فنأكله بعد عشرة أيام»‘‘

ترجمہ:حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے،انہوں نےفرمایا:میں نے اُمّ المؤمنین (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے پوچھا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے گوشت سے منع فرمایا کرتے تھے؟انہوں نے فرمایا:نہیں، لیکن اس وقت لوگوں میں قربانی کرنے والے کم ہوتے تھے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ جو قربانی کرتے ہیں، وہ اُن لوگوں کو کھلائیں جو قربانی نہیں کرتےاور  ہم پائے کو سنبھال  کر رکھتے اور دس دن بعد اسے کھاتے تھے۔ (جامع  ترمذی،جلد4،صفحہ95،رقم الحدیث1511،مطبوعہ مصر)

صحیح بخاری شریف،سنن ابن ماجہ،مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں ہے:

واللفظ للاول:’’عن عبد الرحمن بن عابس، عن أبيه، قال: قلت لعائشة: أنهى النبي صلى اللہ عليه وسلم أن تؤكل لحوم الأضاحي فوق ثلاث؟ قالت: «ما فعله إلا في عام جاع الناس فيه، فأراد أن يطعم الغني الفقير، وإن كنا لنرفع الكراع، فنأكله بعد خمس عشرة» قيل: ما اضطركم إليه؟ فضحكت، قالت: «ما شبع آل محمد صلى اللہ عليه وسلم من خبز بر مأدوم ثلاثة أيام حتى لحق بالله»‘‘

ترجمہ:حضرت عبدالرحمن بن عابس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا:میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا تھا؟انہوں نے فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا صرف اُس سال کیا جب لوگ بھوکے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ مال دار لوگ فقیروں کو کھلائیں،اور بے شک ہم پائے کوسنبھال  کر رکھتے اور پندرہ دن کے بعد اُسے کھاتے تھے۔پوچھا گیا: آپ کوایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسکرادیں اور فرمایا:آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک بھی سالن میں تر کی گئی  گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ (صحیح البخاری،جلد7،صفحہ76،رقم الحدیث5423،دار طوق النجاۃ)

سنن نسائی کی حدیث پاک ہے:

’’عن عبد الرحمن بن عابس، عن أبيه قال: سألت عائشة عن لحوم الأضاحي؟ قالت: «كنا نخبأ الكراع لرسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم شهرا ثم يأكله» ‘‘

ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن عابس نے اپنے والد سے روایت کیا، وہ فرماتے  ہیں: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قربانی کے گوشت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پائے ایک مہینہ تک محفوظ رکھتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے تناول فرماتے۔ (سنن نسائی،جلد7،صفحہ235،رقم الحدیث4433،مطبوعہ حلب)

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

’’وإن كنا لنرفع الكراع إلخ فإن فيه بيان جواز ادخار اللحم وأكل القديد وثبت أن سبب ذلك قلة اللحم عندهم بحيث إنهم لم يكونوا يشبعون من خبز البر ثلاثة أيام متوالية‘‘

ترجمہ:اور ہم پائے کو اٹھا کر رکھتے تھے(الخ)،تو اس میں گوشت کو ذخیرہ کرنے اور خشک گوشت کھانے کے جواز کا بیان ہے،اور یہ بات ثابت ہے کہ اس کا سبب تو وہ  ان کے پاس گوشت کی کمی ہونا ہے،اس طرح  کہ انہوں نے مسلسل   تین دن گیہوں کی روٹی سے سیر ہو کر نہیں کھایا۔ (فتح الباری،جلد9،صفحہ553،دار المعرفة ،بيروت)

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

’’فيه: أن القديد كان من طعام النبى عليه السلام وسلف الأمة، وأما قول عائشة: (ما فعله إلا فى عام جاع الناس) تريد نهيه أن يأكلوا من لحوم نسكهم فوق ثلاث من أجل الدافة التى كان بها الجهد فأطلق لهم عليه السلام بعد زوال الجهد الأكل من الضحايا ما شاءوا، ولذلك قالت: (إن كنا لنرفع الكراع بعد خمس عشرة)‘‘

ترجمہ:اس حدیث میں ہے کہ خشک گوشت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے سلف صالحین کے کھانوں میں سے تھا،اوربہرحال  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا فرمان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا صرف اس سال کیا جب لوگ بھوکے تھے،تو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےقربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کرنے کا ارادہ  ایک بڑی جماعت کی وجہ سے کیا  تھا جن پر تنگی تھی،پھر جب یہ تنگی دور ہو گئی،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  لوگوں کو اجازت دے دی کہ قربانی کے گوشت سے جتنا چاہیں کھائیں،اور اسی وجہ سے حضرت عائشہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم پائے کو پندرہ دن بعد تک سنبھال  رکھتے تھے۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال،جلد9،صفحہ497،مطبوعہ ریاض)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-798

تاریخ اجراء:28 ذی الحجۃ الحرام1446ھ/25جون 2025ء