قربانی کے وقت کے متعلق مکمل تفصیل

قربانی کےوقت کے متعلق تفصیل

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

(1) قربانی کے وقت کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ عید کے تیسرے دن یعنی ذو الحج کی بارہ تاریخ کو کتنے بجے تک قربانی کی جاسکتی ہے اور عوام میں یہ جو مشہور ہے کہ قربانی کا وقت عید کے تیسرے دن 10 بجے تک یا ظہر تک ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟

(2) اور مزید یہ بھی ارشاد فرما دیں کہ ایک شخص اگر جان بوجھ کر بغیر کسی وجہ کے قربانی کے پہلے اور دوسرے دن قربانی نہیں کرتا اور تیسرے دن مغرب سے کچھ دیر پہلے قربانی کا جانور ذبح کرتا ہے تو کیا اس کی قربانی ہو جائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

(1)قربانی کا وقت عید کے تیسرے دن غروب آفتاب تک ہے۔ تیسر ے دن کے غروب آفتاب سے پہلے تک اگر کوئی قربانی کرلیتا ہے، تو اس کی قربانی ادا ہو جائے گی۔ اور عوام میں مشہور بات کہ ”قربانی کا وقت تیسرے دن 10 بجے تک یا ظہر تک ہے“ شرعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔

(2) قربانی میں اس بات کی اجازت ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے، یعنی پہلے دن سے تیسرے دن کے غروب آفتاب سے پہلے تک جب قربانی کرے گا، اس کی قربانی ہو جائے گی۔ البتہ! سب سے افضل پہلے دن قربانی کرناہے، پھر دوسرے دن، پھر تیسرے دن، اس لیے بہتریہ ہے کہ اگرکوئی مجبوری وغیرہ نہ ہو تو پہلے دن قربانی کرلی جائے کہ اس میں ثواب زیادہ ہے۔

کنزالعمال میں ہے

"عن علي قال: الأيام المعدودات ثلاثة أيام: يوم النحر و يومان بعده، اذبح في أيها شئت، و أفضلها أولها."

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرمایا: گنتی کے دنوں سے مرادتین دن ہیں: دس ذو الحجہ کا دن اور دو دن اس کے بعد، ان میں سے جس دن میں چاہے ذبح کر اور ان میں سے سب سے زیادہ فضیلت والادن پہلاہے۔ (کنز العمال، ج 05، ص 223، موسسۃ الرسالۃ)

درِ مختار میں ہے

"و آخرہ قبیل غروب یوم الثالث"

ترجمہ: قربانی کا آخری وقت تیسرے دن کے غروب آفتاب سے پہلے تک ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 9، صفحہ 529، مطبوعہ کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے "قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن، دوراتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں۔" (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 336، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے

"أنها تجب في وقتها وجوبا موسعا في جملة الوقت من غير عين، ففي أي وقت ضحى من عليه الواجب كان مؤديا للواجب سواء كان في أول الوقت أو في وسطه أو آخره"

ترجمہ: قربانی اپنے تمام وقت میں بغیر کسی معین وقت کے واجب ہے، تو جس پر قربانی واجب ہے اس نے کسی بھی وقت میں قربانی کی تو اس نے واجب ادا کر دیا، خواہ وہ اول وقت میں ہو، درمیانے وقت میں ہو یا آخری وقت میں ہو۔ (فتاویٰ ہندیہ، جلد 5، صفحہ 293، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

درِ مختار میں ہے

"افضلھا اولھا"

یعنی قربانی کے لیے پہلا دن افضل ہے۔

اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے

"ثم الثانی ثم الثالث"

یعنی: (قربانی کے لیے پہلا دن افضل ہے) اس کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا۔ (رد المحتار، جلد 6، صفحہ 316، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے "یہ ضرورنہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے۔۔۔۔۔۔ پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب میں افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے۔" (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 334 ، 336، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3946

تاریخ اجراء: 23 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 20 جون 2025 ء