
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-180
تاریخ اجراء:17ذوالقعدۃا لحرام1437ھ/21اگست 2016ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تعمیر مسجد کا کام جاری ہو، تو کیا قربانی کی کھالیں تعمیر مسجد میں صرف کی جا سکتی ہیں؟
(۲)کیا قربانی کی کھالوں میں کسی فقیر کو مالک بنانا ضروری ہے؟ سائل:محمد یونس علی(راولپنڈی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی کی کھال ہر نیک، جائز اور ثواب والے کام میں صرف کی جا سکتی ہے اور تعمیر مسجد یا مصارف مسجد میں خرچ کرنا بھی نیک اور ثواب کا کام ہے، لہذا تعمیر مسجد میں قربانی کی کھالیں صَرف کی جا سکتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قربانی کے متعلق فرمایا: ’’فکلوا وادخروا واتجروا‘‘ ترجمہ :پس کھاؤ، اٹھا رکھواور ثواب کے کام میں خرچ کرو۔‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب حبس لحوم الاضاحی، جلد2، صفحہ40، مطبوعہ لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے:’’قربانی کی کھال ہر اس کام میں صَرف کر سکتے ہیں، جو قربت و کارِ خیر و باعثِ ثواب ہو، حدیث میں ہے: ’’فکلوا وادخروا وائتجروا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ473، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید فرماتے ہیں:’’قربانی کے چمڑوں کو للہ مسجد میں دے دینا کہ انہیں یا ان کی قیمت کو متولی یا منتظمانِ مسجد، مسجد کے کاموں مثلاً ڈول، رسی، چراغ، بتی، فرش، مرمت، تنخواہِ مؤذن، تنخواہِ امام وغیرہ میں صرف کریں، بلا شبہ جائز و باعثِ اجر و کارِ ثواب ہے، تبیین الحقائق میں ہے: ’’جاز لانہ قربۃ کالتصدق‘‘ ترجمہ: جائز ہے، کیونکہ یہ صدقہ کی طرح قربت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 476، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی امجدیہ میں ہے:’’چرمِ قربانی مسجد میں صَرف کر سکتا ہے، یونہی بیچ کر اس کی قیمت سے مسجد کی مرمت کرنا یا لوٹا وغیرہ سامانِ مسجد خریدنا، جائز ہے، جبکہ اس کی نیت سے بیچا ہو، یا متولی مسجد کو چمڑا دیدیا، کہ اس نے بیچ کر ان چیزوں میں صَرف کیا ہو ( یہ جائز ہے)‘‘۔(فتاوی امجدیہ، حصہ3، صفحہ307، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی)
(۲) قربانی کی کھالوں میں کسی فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ضروری نہیں، کہ تملیکِ فقیر زکوۃ اور بعض صدقاتِ واجبہ میں شرط ہے، ہر صدقۂ واجبہ میں بھی لازم نہیں، جیسے کفارۂ صیام و ظہار و یمین میں، کہ ان کا کھانا کھلانے میں اباحت کافی ہے، جبکہ کھال کو صدقہ کرنا واجب بھی نہیں، ایک نفلی صدقہ ہے، اسی لیے نیک، جائز اور قربت والے کاموں میں صَرف کرنے کے علاوہ مخصوص شرائط کے ساتھ اپنے کام میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہی ہے:’’تصدق جس میں تملیکِ فقیر ضرور ہے، صدقاتِ واجبہ مثل زکوۃ میں ہے، ہر صدقہ واجبہ میں بھی نہیں، جیسے کفارۂ صیام و ظہار و یمین کہ ان کے طعام میں تملیکِ فقیر کی حاجت نہیں، اباحت بھی کافی ہے، کما فی فتح القدیر، وغیرہ عامۃ الکتب۔‘‘
چرم قربانی کا تصدق اصلاً واجب نہیں، ایک صدقۂ نافلہ ہے، اس میں اشتراطِ تملیک کہاں سے آیا، بلکہ ہر قربت جائز ہے، نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: ’’کلوا وادخروا وائتجروا‘‘ ترجمہ : کھاؤ اور ذخیرہ رکھو، اور ثواب کا کام کرو۔‘‘
کیا مسجد میں دینا ثواب کا کام نہیں، امام زیلعی تبیین الحقائق میں فرماتےہیں: ’’لانہ قربۃ کالتصدق‘‘ ترجمہ: کیونکہ یہ صدقہ کی طرح قربت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 488، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید فرماتے ہیں:’’زکوۃ میں تملیک بلا عوض بہ نیتِ زکوۃ درکار ہے، بے اس کے اور وجوہِ تقرب مثل مسجد و مدرسہ و تکفینِ موتی وغیرہا میں اس کا صَرف کافی نہیں، ہاں مثلاً جو طلبہ علم مصرف ہوں، انہیں نقد یا کپڑے یا کتابیں بروجہ مذکور دے کر اعانتِ مدرسہ ممکن، کما یظھر من الدر وغیرہ۔
چرمِ قربانی میں تصدق بمعنی مسطور اصلاً ضرور نہیں، منسک متوسط میں ہے: ’’لا یجب التصدق بہ‘‘ ترجمہ: اس کا صدقہ نہیں، مسلک متقسط میں ہے: ’’لا بکلہ ولا ببعضہ‘‘ ترجمہ: نہ کل نہ بعض‘‘۔(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 497، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم