Sahib-e-Nisab Na Baligh Bache Par Qurbani Ka Hukum

صاحبِ نصاب نابالغ بچے پر قربانی کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-156

تاریخ اجراء:02ذوالحجۃ الحرام1435ھ/28ستمبر2014ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا بیٹا جو چھ سال کا ہے، ہم نے عرصہ چار ماہ قبل اس کے لیے تقریباً  نو تولے سونے کا سیٹ یہ سوچ کر بنوایا تھا، کہ جب اس کی شادی کریں گے،اُس وقت ضرورت ہوئی، تو بیچ کر رقم استعمال کر لیں گے اور ضرورت پیش نہ آئی تو یہی زیور آنے والی بہو کو ڈال دیں گےاور اِن دنوں میں مَیں بھی مالک نصاب ہوں اور مجھ پرقربانی واجب ہو گی، آیا اپنی قربانی کے ساتھ مجھے اپنے بیٹے کی طرف سے بھی قربانی کرنی ہو گی (جبکہ وہ تقریباً نو تولے زیور کا مالک ہے)،  براہ کرم رہنمائی کی جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں نہ آپ کے بیٹے پر قربانی واجب ہے اور نہ ہی اُس کی طرف سے آپ پر، کیونکہ آپ کا (چھ سالہ) بیٹا نا بالغ ہے اور قربانی نابالغ پر واجب نہیں اور نہ ہی اُس کی طرف سے اُس کے والد پرواجب ہے۔ ہاں! اگر اُس کی طرف سے اپنے مال سے کریں، توافضل ہےاور ثواب کے مستحق ہوں گے۔

   تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: ’’(فتجب علی حر مسلم مقیم موسر عن نفسہ لا عن طفلہ) علی الظاھر‘‘ ترجمہ :(پس آزاد، مسلمان، مقیم، خوشحال پر اپنی طرف سے (قربانی) واجب ہے، نہ کہ اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے) ظاہر الروایہ کے مطابق۔‘‘

   اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی دمشقی حنفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ (متوفی 1252ھ) رد المحتار میں فرماتے ہیں: ’’(قولہ لا عن طفلہ) ای من مال الاب،(قولہ علی الظاھر) قال فی الخانیۃ:’’ فی ظاھر الروایۃ انہ یستحب و لا یجب۔۔ و الفتوی علی ظاھر الروایۃ‘‘ ترجمہ :(اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے) باپ کو اپنے مال سے قربانی کرنا واجب نہیں، (ظاہر الروایہ کے مطابق) خانیہ میں ہے: ’’ظاہر الروایہ کے مطابق بچے کی طرف سے قربانی کرنا مستحب ہے، واجب نہیں،۔۔ اور فتوی ظاہر الروایہ پر ہے۔(رد المحتار علی الدر مختار مع تنویر الابصار، کتاب الاضحیہ، جلد 9، صفحہ 524، مطبوعہ  پشاور)

   علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی علیہ رحمۃ اللہ الغنی(متوفی587ھ) بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں: ’’ذکر القاضی فی شرحہ مختصر الطحاوی: ’’انھا لا تجب فی ظاھر الروایۃ ، ولکن الافضل ان یفعل ذلک‘‘ ترجمہ: امام قاضی نے اپنی شرح مختصر الطحاوی میں ذکر کیا کہ ظاہر الروایہ کے مطابق (باپ پر اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے قربانی) واجب نہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ وہ قربانی کرے۔( بدائع الصنائع، کتاب التضحیہ، فصل فی شرائط الوجوب فی الاضحیہ، جلد4، صفحہ 197، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن(متوفی 1340ھ)  فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: ’’نابالغ اگر چہ کسی قدر مالدار ہو، نہ اس پر قربانی ہے، نہ اس کی طرف سے اس کے باپ وغیرہ پر۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 369، رضا فاونڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم