
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-172
تاریخ اجراء:02محرم الحرام 1438ھ/21ستمبر 2017ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قربانی کے جانور مثلا ً بکرے کو ذبح کرتے ہوئے اس کی چار رگیں کاٹی گئیں، لیکن اس کاسر بھی جدا ہو گیا،تو کیا ایسے جانور کی قربانی ہو جائے گی ؟نیز اس جانور کا گوشت کھانا کیسا؟سائل:انصر عباسی (مری)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں ذبح شرعی پائے جانے کی وجہ سے قربانی ہو جائے گی، جبکہ وہ جانور قربانی کے شرعی معیار پر پورا اُترتا تھااور اس جانورکا گوشت کھانا بھی بلا شبہ جائز ہے، البتہ جانور کو اس طرح ذبح کر نا کہ اس کا سر کٹ کر جدا ہو جائے، یہ فعل ضرور مکروہ ہے، مگر یہ کراہیت گوشت میں سرایت نہیں کرتی۔
ہدایہ شریف میں ہے: ’’ومن بلغ بالسکین النخاع او قطع الراس کرہ لہ ذلک و توکل ذبیحتہ‘‘ ترجمہ: جانور ذبح کرنےوالاحرام مغز تک چھری لے گیا یا مکمل سر ہی کاٹ دیا، تو اس کا یہ فعل مکروہ ہے، لیکن بہر حال اس کا ذبیحہ حلال ہے۔(ہدایہ، ج4،ص437،مطبوعہ لاہور)
اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں :’’اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے، مکروہ ہے، مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا، یعنی کراہت اس فعل میں ہے، نہ کہ ذبیحہ میں۔ عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہو جائے، تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے، یہ کتب فقہ میں نظر سے نہیں گزرا، بلکہ فقہاء کا یہ ارشاد کہ ’’ذبیحہ کھایا جائے گا‘‘ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔‘‘(بہار شریعت،ج3،ص315،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم