
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3688
تاریخ اجراء:20رمضان المبارک 1446ھ/21مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا چاہتا ہو لیکن ملازمت کی وجہ سے اسے اجازت نہ ملے،تو کیا وہ صرف تین دن کا اعتکاف کر سکتا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! تین دن کا بھی اعتکاف ہو سکتا ہے ، لیکن یہ نفل اعتکاف ہو گا ، سنت مؤکدہ علی الکفایہ اعتکاف نہیں ہوگا کہ سنت موکدہ علی الکفایہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری پورے عشرے کا ہوتا ہے ۔
در مختار میں ہے” (وهو) ثلاثة أقسام (واجب النذر) بلسانه وبالشروع وبالتعليق ذكره ابن الكمال (وسنة مؤكدة في العشر الأخير من رمضان) أي سنة كفاية (مستحب في غيره من الأزمنة) هو بمعنى غير المؤكدة.“ترجمہ: اعتکاف کی تین اقسام ہیں: زبان سےیا شروع کرنے سے یا تعلیق کرنے نذر ماننے سے واجب ہونے والا ۔ اس کو ابن کمال نے ذکر کیا ۔ سنت موکدہ رمضان کے آخری عشرے میں یعنی کہ سنت کفایہ اور مستحب پہلی دو صورتوں کے علاوہ کسی بھی وقت ، یہ سنت غیر موکدہ کے معنی میں ہے۔(الدر المختارمع ردالمحتار ، ج 3،ص 495،مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی ہندیہ میں ہے"الصوم ليس بشرط في التطوع، وليس لأقله تقدير على الظاهر حتى لو دخل المسجد ونوى الاعتكاف إلى أن يخرج منه صح هكذا في التبيين. "ترجمہ: نفل اعتکاف میں روزہ شرط نہیں اور نہ ہی ظاہر قول پر اس کا کوئی وقت مقرر ہے ،یہاں تک کہ اگر مسجد میں داخل ہوا اور اعتکاف کی نیت کر لی تو اس کے مسجد سے نکلنے تک اعتکاف درست ہو گا ۔ اسی طرح تبیین میں ہے ۔(فتاوی ہندیہ ، ج 1 ، ص 211،مطبوعہ:کوئٹہ)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”اعتکاف تین قسم ہے ۔ (1)واجب کہ اعتکاف کی منت مانی یعنی زبان سے کہا، محض دل میں ارادہ سے واجب نہ ہو گا ۔ (2) سنت مؤکدہ کہ رمضان کے پورے عشرہ اخیرہ میں یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیت اعتکاف مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے ۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب نیت اعتکاف کی تو سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی اور یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہو گا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ ۔ (3)ان دو کے علاوہ اور جو اعتکاف کیا جائے وہ مستحب و سنت غیر مؤکد ہ ہے۔اعتکاف مستحب کے لیے نہ روزہ شرط ہے نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر ، بلکہ جب مسجد میں اعتکاف کی نیت کی ، جب تک مسجد میں ہے معتکف ہے ، چلا آیا اعتکاف ختم ہو گیا۔"(بہار شریعت، جلد1، صفحہ1021، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم