
مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1871
تاریخ اجراء:02صفرالمظفر1446ھ/08اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
آنکھ کا آپریشن ہوا ہے ڈاکٹر نے آنکھ میں پانی ڈالنے سے منع کیا ہے،یعنی ایک قطر ہ پانی بھی آنکھ میں نہ جائے۔ ایسی صورت میں فرض غسل کیسے کیا جائے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آنکھ کے آپریشن کے بعد کچھ عرصہ آنکھ میں پانی جانا نقصان دہ ہوتا ہے لہٰذا تب تک آنکھ پر پٹی یا کپڑا رکھ کر باقی چہرہ دھونا ہوگا اور آنکھ والے حصے پر پٹی یا کپڑے کے اوپر سے پانی کی دھار بہانی ہو گی لیکن اگر یہ بھی نقصان دے، تو پھر گیلے ہاتھ کا مسح کرنا ہوگا اور یہ بھی مُضِر (یعنی نقصان دِہ)ہو، تو اس حصے کو دھونا یا مسح کرنا شرعاً معاف ہوگا،اتنے حصے کو چھوڑ دے۔
جب اتنا بہتر ہوجائے کہ کپڑے یا پٹی کے اوپر سے گیلے ہاتھ کا مسح کرسکیں تو فوراً مسح کریں اور جب پانی کی دھار بہانا ممکن ہو جائے تو اب دھاربہانی شروع کریں۔پھر جب اتنی صحت ہوجائے کہ پٹی وغیرہ کے بغیر ڈائریکٹ آنکھ پر گیلے ہاتھ کا مسح ممکن ہو تو اب آنکھ ہی پر مسح کرنا ہوگا،یہاں تک کہ پانی سے دھونے کے قابل ہوجائیں۔
زخم پر پانی بہانانقصان دہ ہوتو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:’’(فمن كان به جراحة) يضرها الماء ووجب عليه الغسل (غسل بدنه إلا موضعها ولا يتيمم لها)وكذلك إن كانت الجراحة فی شئ من أعضاء الوضوء غسل الباقی إلا موضعهاولا يتيمم لها‘‘ یعنی جسے ایسا زخم ہوجس پر پانی بہانا نقصا ن دے اور اس پر غسل لازم ہوجائےتو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی بدن پر پانی بہائے اور وہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر اعضائے وضو میں سے کسی عضو پر زخم ہوجائےتو زخم والی جگہ کے علاوہ باقی اعضا پر پانی بہائے اور وہ اس زخم کی وجہ سے تیمم نہیں کرے گا۔(الاختیار لتعلیل المختار،جلد1،صفحہ31،مطبوعہ:کراچی)
زخم کی جگہ کو کب دھویا جائے گا، کب اس پرمسح کیا جائے گا اورکب مسح کرنا بھی معاف ہے ؟ اس سے متعلق درمختار میں ہے:’’لزوم غسل المحل ولو بماء حار ،فإن ضر مسحه، فإن ضر مسحها،فإن ضر سقط أصلا‘‘ یعنی زخم کی جگہ کو دھونا لازم ہے اگرچہ گرم پانی کے ساتھ اور اگردھونے سے ضَرر (یعنی نقصان) ہو تو زخم پر مسح کرے ، اگر زخم پر مسح کرنے سے بھی ضَرر ہو تو پٹی پر مسح کرے اور اگر اس سے بھی ضَرر ہو تو (مسح یا دھونا) اصلاً معاف ہوجائے گا(جب تک ایسی حالت رہے)۔(الدر المختار معہ رد المحتار،جلد1،صفحہ517،مطبوعہ:کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:”زید کی ران میں پھوڑا یا اور کوئی بیماری ہے ڈاکٹر کہتا ہے پانی یہاں نقصان کرے گا مگر صرف اُسی جگہ مُضِر ہے اور بدن پر ڈال سکتاہے اس حالت میں وضویا غسل کے لیےتیمم درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے تو تیمم غسل کا ویسا ہی ہے جیسا وضو کا؟ یا کیا حکم ہے؟“
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”صورتِ مسئولہ میں غسل یا وضو کسی کیلئے تیمم جائز نہیں وضو کیلئے نہ جائز ہوناتوظاہر کہ ران کو وضو سے کوئی علاقہ نہیں اور غسل کیلئے یوں نارواکہ اکثر بدن پر پانی ڈال سکتا ہے لہٰذا وضو تو بلاشبہ تمام وکمال کرے اور غسل کی حاجت ہوتواگر مضرت صرف ٹھنڈاپانی کرتا ہے گرم نہ کرے گا اور اسے گرم پانی پر قدرت ہے توبیشک پورا غسل کرے اتنی جگہ کو گرم پانی سے دھوئے باقی بدن گرم یا سرد جیسے سے چاہے اور اگر ہر طرح کا پانی مضر ہے یا گرم مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں توضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرلے اور اگر وہاں بھی مسح نقصان دے مگر دوا یا پٹی کے حائل سے پانی کی ایک دھار بہا دینی مضر نہ ہوگی تو وہاں اُس حائل ہی پر بہادے باقی بدن بدستور دھوئے اور اگر حائل پر بھی پانی بہانا مضر ہوتو دوا یا پٹی پر مسح ہی کرلے اگر اس سے بھی مضرت ہوتو اُتنی جگہ خالی چھوڑ دے جب وہ ضرر دفع ہوتوجتنی بات پر قدرت ملتی جائے بجالاتاجائے مثلاً ابھی پٹی پر سے مسح بھی مضر تھا لہٰذا جگہ بالکل خشک بچادی چند روز بعد اتنا آرام ہوگیا کہ یہ مسح نقصان نہ دے گا تو فوراً پٹی پر مسح کرلے اسی قدر کافی ہوگاباقی بدن تو پہلے کا دھویاہی ہواہے جب اتناآرام ہوجائے کہ اب بندش پر سے پانی بہانا بھی ضرر نہ کرے گا فوراً اس پر پانی کی دھار ڈال دے صرف مسح پر جو پہلے کر چکا تھا قناعت نہ کرے جب اتناآرام ہوجائے کہ اب خاص موضع کا مسح بھی ضرر نہ دے گا فوراً وہاں مسح کرلے پٹی کے غسل پر قانع نہ رہے جب اتناآرام ہو کہ اب خود وہاں پانی بہانا مضر نہ ہوگا فوراً اُس بدن کو پانی سے دھولے۔غرض رخصت کے درجے بتادئے گئے ہیں جب تک کم درجہ کی رخصت میں کام نکلے اعلیٰ درجہ کی اختیار نہ کرے اور جب کوئی نیچے کا درجہ قدرت میں آئے فوراً اُس تک تنزل کرآئے۔ اسی طرح اگر یہ حالت ہو کہ اُس جسم پر پانی تو نقصان نہ دے گا مگر بندھا ہوا ہے کھولنے سے نقصان پہنچے گا یا کھول کر پھر باندھ نہ سکے گا تو بھی اجازت ہے کہ بندش پر سے دھونے یا مسح کرنے جس بات کی قدرت ہو عمل میں لائے جب وہ عذر جاتا رہے کھول کر جسم کو مسح یا غسل جو مقدور ہوکرے۔ یہی سب حکم وضو میں ہیں اگر اعضائے وضو میں کسی جگہ کوئی مرض ہو۔ الحاصل یہاں اکثر کیلئے حکم کُل کا ہے جب اکثر بدن پر پانی ڈال سکتا ہو تو ہرگز تیمم کی اجازت نہیں بلکہ یہی طریقے جو اوپر گزرے بجالائے ہاں اگر اکثر بدن پر پانی ڈالنے کی قدرت نہ ہو خواہ یوں کہ خود مرض ہی اکثر بدن میں ہے یا مرض تو کم جگہ ہے مگر واقع ایسا ہوا کہ اُس کے سبب اور صحیح جگہ کو بھی نہیں دھو سکتا کہ اُس کا پانی اس تک پہنچے گا اور کوئی صورت بچا کر دھونے کی نہیں یوں اکثر بدن دھونے کی قدرت نہیں (مثلاً رانوں، پنڈلیوں ، بازوؤں ، کلائیوں ، پیٹھ پر جابجا دودو چارچار انگل کے فاصلے سے دانے ہیں کہ صرف دانوں کی جگہ جمع کی جائے تو سارے بدن کے نصف حصہ سے کم ہو مگر وہ پھیلے ہوئے اس طرح ہیں کہ ان کے بیچ بیچ کی خالی جگہ پر بھی پانی نہیں بہاسکتے) تو ایسی حالت میں بیشک تیمم کی اجازت ہوگی اب یہ نہ ہوگا کہ صرف تھوڑا سا بدن دھو کر باقی سارے جسم پر مسح کرلے۔“ (فتاوی رضویہ،جلد1،حصہ ب،صفحہ 617-618،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم