Mental Patient ko Zakat Dena Kaisa?

جس کا ذہنی توازن کبھی خراب اور کبھی صحیح ہوجاتا ہو، اس کو زکوٰۃ دینا کیسا؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمدہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:FSD-9008

تاریخ اجراء:19 محرم الحرام 1446 ھ /26 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  میرے بچوں کے ماموں کے دماغ پر اثر ہو گیا ہے،وہ بہت بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں،کبھی کوئی بات ٹھیک کرتے ہیں ، پھر عجیب و غریب باتیں شروع کر دیں گے،کبھی بچے سے پیار کریں گے،کچھ دیر بعد کہیں گے کہ اسے تھیلے میں ڈال کر باہر پھینک آئیں،وغیرہ، لیکن وہ پاگلوں کی طرح  بلا وجہ لوگوں کو گالیاں یا مارتے نہیں ہیں۔اسی آزمائش میں کئی مہینوں سے وہ بستر پر ہیں، کام نہیں کر پا رہے، ان پر کافی قرض چڑھ گیا ہے،ان کے پاس سونا ، چاندی ، کرنسی وغیرہ کوئی چیز نہیں، ان کے والد صاحب رکشہ چلاتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہو رہے ہیں، یہ بھی صاحبِ حیثیت نہیں کہ کچھ بچا کر قرض ادا کر سکیں،بلکہ گزارہ بہت مشکل سے ہوتا ہے،تو اگر ہمارا کوئی جاننے  والا بچوں کے ماموں کے قرض کی ادائیگی میں زکوٰۃ دینا چاہے،تو کیا  ان  کوزکوٰۃ لگ سکتی ہے اور کیا زکوٰۃ کی رقم ان کے قرض  خواہوں کو دے کر ان کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے؟تاکہ ان کا یہ بوجھ کم ہو سکے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی آپ کے بچوں کے ماموں اوران کے والد صاحب دونوں  زکوٰۃ کے حق دار یعنی شرعی فقیر ہیں(جس کے پاس قرض اورحاجتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابرمال موجودنہ ہواوراس میں زکوٰۃ لینے کی دیگرشرائط(مثلا ہاشمی نہ ہونا،لینے والے کادینے والے کی اولادیا آباء و اجداد  نہ ہونا وغیرہ شرائط پائی جائیں) تو بچوں کے ماموں کو  زکوٰۃ دی جا سکتی ہے،البتہ  زکوٰۃ کی رقم ڈائریکٹ ان کے قرض کی ادائیگی میں نہیں دے سکتے،بلکہ پہلے انہیں  مالک کرنا ضروری ہے، اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :

   (1)زکوٰۃ کی رقم ان کے قبضہ میں دے  دی جائے، پھر اس رقم سے  ان کے والد صاحب ان کا قرض ادا کردیں۔

    (2)ان کے والد صاحب زکوٰۃ دینے والے کو اجازت دے دیں کہ زکوٰۃ کی رقم سے میرے بیٹےکا قرض ادا کر دو، اس صورت میں مالِ زکوٰۃ ڈائریکٹ قرض خواہ کو دینے سے بھی   زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ ایسا شخص جس کو دماغی عارضہ لاحق ہو،جس بنا پر وہ بہکی بہکی باتیں کرے اور اسے ہوش نہ رہتا ہو،لیکن وہ پاگلوں کی طرح لوگوں کو  مارتا،گالیاں نہ دیتا ہو،تو وہ   شرعاً "معتوہ/بوہرا "کہلاتا ہے  اور  معتوہ تمام شرعی احکام  میں سمجھدار، نابالغ بچے کی طرح ہے اور نابالغ بچہ جب خود اور اس کا باپ(یا باپ فوت ہوجانے کی صورت میں دادا) شرعی فقیر ہوں یا  باپ دادا  وفات پا چکے ہوں اور خود نابالغ شرعی فقیر ہو،تویہ مستحقِ زکوٰۃ قرار پاتا  ہے،البتہ ادائیگیِ زکوٰۃ کے لیے اس کو مالِ زکوٰۃ  کا مالک کرنا  ضروری ہوتا ہے، ورنہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی اور جب معتوہ ، سمجھدار  نابالغ کے حکم میں ہے،تو اگر معتوہ  اور  اس کاوالد(والد کے نہ ہونے کی صورت میں دادا ) شرعی فقیر ہوں ، تو اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ،نیز جس طرح نابالغ کے مال میں  اس کے والد کو ولایت حاصل ہوتی ہے،یونہی معتوہ کے مال میں بھی اس کے والد کو ولایت حاصل ہوگی اور معتوہ کا والد اس کے مال سے اس کا قرض ادا کر سکتا ہے۔

   نیز مالِ زکوٰۃ سے ڈائریکٹ شرعی  فقیر کا قرض ادا نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے شرعی فقیر کو زکوٰۃ کا مالک بنانا ضروری ہے ، مالک بنائے بغیر اگر اس کا قرض ادا کر دیا  ،تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی،ہاں  اگر شرعی فقیر زکوٰۃ دینے والے کو خوداجاز ت دےدےکہ تم مالِ زکوٰۃ سے فلاں کو میرا قرض دے دو ، تواس صورت میں شرعی فقیر کو سپرد  کیے بغیر  بھی اس کا قرض ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، کیونکہ جب شرعی فقیر  نے زکوٰۃ دینے والے کو زکوٰۃ کی رقم  قرض خواہوں کو دینے کی اجازت دے دی،تو  قرض خواہ   شرعی فقیر  کی طرف سے بطورِ نائب مالِ زکوٰۃ پر قبضہ کرے گا  اور نائب کا قبضہ  کر لینا ،  شرعی فقیر کا ہی قبضہ شمار ہوگا۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق معتوہ  شخص کو زکوٰۃ  دی جاسکتی ہے اور اس کا والد اس کی طرف سے قرض ادا کر سکتا ہے اور یہ بھی  ہو سکتا ہے کہ  معتوہ شخص کاوالد زکوٰۃ دینے والے  کو اجازت دے دے کہ تم میرے بیٹے کی طرف سے زکوٰۃ کی رقم سے  قرض ادا کر دو ، تو اس صورت میں  قرض خواہ کو قرض کی ادائیگی  کرنے سے بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔

   معتوہ کی تعریف اور حکم کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1252ھ /1836ء) لکھتے ہیں:أن المعتوه هو القليل الفهم المختلط الكلام الفاسد التدبير،لكن لا يضرب ولا يشتم بخلاف المجنون وصرح الأصوليون بأن حكمه كالصبيترجمہ : معتوہ ایسا شخص جو کم سمجھ ہو اس کی باتوں میں اختلاط(یعنی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا )ہو، فاسد التدبیرہو ، لیکن مجنون کی طرح لوگوں کو مارتا ،گالیاں نہ دیتا ہو،بر خلاف مجنون شخص کے(کہ وہ  بلاوجہ لوگوں کو مارتا،گالیاں دیتا پھرتا ہے) اور اصولی علمائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ معتوہ شخص سمجھدار بچے  کے حکم میں ہے۔(ردالمحتار، کتاب الطلاق، جلد4، صفحہ438، مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت  الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:معتوہ بوہرا  جس کی عقل ٹھیک نہ ہو،تدبیر مختل ہو،کبھی عاقلوں کی سی بات کرے،کبھی پاگلوں کی، مگر مجنون کی طرح لوگوں کو محض بے وجہ مارتا گالیاں دیتا،اینٹیں پھینکتا نہ ہو،وہ تمام احکام میں صبی عاقل کی مثل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد2، صفحہ529، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   معتوہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، نیز  جب یہ سمجھدار بچے کی طرح ہے،تو یہ خود بھی اور اس کی طرف سے اس کا  ولی بھی  قبضہ کرسکتا ہے، چنانچہ بنایہ شرح ہدایہ، فتح القدیر، بحر الرائق، درمختار وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للبحر:ولم يشترط البلوغ والعقل، لأنهما ليس بشرط، لأن تمليك الصبي صحيح لكن إن لم يكن عاقلا، فإنه يقبض عنه وصيه أو أبوه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا أو الملتقط كما في الولوالجية، وإن كان عاقلا فقبض من ذكر، وكذا قبضه بنفسه، والمراد أن يعقل القبض بأن لا يرمي به، ولا يخدع عنه والدفع إلى المعتوه يجزئ ترجمہ: مصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے عقل و بلوغت کو شرط قرار نہیں دیا،اس لیے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے عاقل و بالغ ہونا شرط نہیں،کیونکہ بچے کو زکوٰۃ دینا بھی صحیح ہے،لیکن اگر بچہ نا سمجھ ہو،تو اس کی طرف سے اس کا وصی یا اس کا والد یا جس کی پرورش میں یہ ہے،وہ قبضہ کرے گا، خواہ قریب کا ہو یا اجنبی یا  وہ جس نے اس بچے کو پڑا ہوا اٹھایا،  یونہی والوالجیہ میں ہے  اور اگر بچہ سمجھدار ہو ، تو جن کا ذکر کیا گیا وہ بھی قبضہ کر سکتے  ہیں اور یہ خود بھی قبضہ کر سکتا ہے اور سمجھدار ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ قبضہ کرنے کو سمجھتا ہو، مال پھینک نہ دے  اور دھوکہ نہ کھائے اور معتوہ کو بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے۔(بحرالرائق، کتاب الزکاۃ، جلد2، صفحہ217، مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھائے، ورنہ ادا نہ ہوگی، مثلاً نہایت چھوٹے بچہ یا پاگل کو دینا اور اگر بچہ کو اتنی عقل نہ ہو، تو اُس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو یا وصی یا جس کی نگرانی میں ہے قبضہ کریں۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ5، صفحہ 875،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   معتوہ  تمام احکام میں نابالغ سمجھدار بچے کی طرح ہے ، تو اس کو زکوٰۃ دینے کی  بھی وہی شرائط ہیں ،  جو نابالغ بچے کے لیے ہیں  کہ اس  کا اور اس کے والد کا شرعی فقیر ہونا ضروری ہے،چنانچہ  نابالغ بچے کو زکوٰۃ دینے کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:”انما منع من الدفع لطفل الغنی لانہ یعد غنیا بغناء ابیہ کذا قالوا وھو یفید ان الدفع لولد الغنیۃ جائز اذ لا یعد غنیا بغناء امہ ولم یکن لہ اب“ ترجمہ: غنی شخص کے نابالغ بچےکو زکوۃ نہیں دی جائے گی،کیونکہ وہ اپنے باپ کے غنی ہونے کی وجہ سے غنی شمار ہوگا،جیسا کہ فقہائےکرام نے فرمایا ہے اور یہ قید اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ اگر ماں مال دار ہے ،تو نابالغ بچے کو زکوۃ دینا جائز ہے، کیونکہ  ماں کے مال دار  ہونے کی وجہ سے  نابالغ بچے کو غنی  شمار نہیں کیا جاتا، اگرچہ اس بچہ کا باپ نہ ہو۔(بحر الرائق، جلد2،صفحہ265،مطبوعہ دار الكتاب الاسلامی)

   باپ نہ ہو، تو دادا کا شرعی فقیر ہونا ضروری ہے کہ دادا ، باپ کے قائم مقام ہوتا ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:”والجد  کالاب عند فقدہ“ ترجمہ:باپ نہ ہو، تو دادا باپ کی طرح ہے۔(الدرالمختار جلد3، صفحہ367، مطبوعہ کوئٹہ)

      صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”مال دار شخص کا نابالغ لڑکا، اگرچہ وہ خود مال کا مالک نہیں، مگر مال دار قرار دیا جائے گا کہ چھوٹے بچے، باپ، دادا کے تمول (یعنی مال داری) سے غنی کہلاتے ہیں۔“(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ 7، صفحہ55،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   نابالغ کے  مال میں اس کے والد کو ولایت حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ  بحر الرائق میں ہے: الولاية في مال الصغير إلى الأب ووصيه ثم وصي وصيه ثم إلى أب الأب ثم إلى وصيه ترجمہ: نابالغ کے مال میں ولایت اس کے والد کو حاصل ہوگی، پھر اس کے وصی کو ، پھر وصی کے وصی کو   ، پھر دادا کو ، پھر اس کے وصی کو حاصل ہوگی۔(بحر الرائق، کتاب الوکالۃ، جلد7، صفحہ177،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی)

   معتوہ کے مال سے اس کا والد اس کا قرض ادا کر سکتا ہے ، کیونکہ معتوہ  کے مال میں  ولایت اس کے والد کو حاصل ہوتی ہے، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:وإذا بلغ الابن معتوها أو مجنونا تبقى ولاية الأب عليه في ماله ونفسه... الابن إذا بلغ عاقلا ثم جن أو عته... تعود ولاية الأب عند علمائنا الثلاثة، كذا في الذخيرة ترجمہ: بچہ معتوہ یا مجنون  ہونے کی حالت میں بالغ ہوا، تو باپ کی ولایت بدستور باقی رہے گی اور اگر بلوغت کے وقت سمجھدار  تھا ، پھر مجنون یا معتوہ ہوگيا ، تو ہمارے تینوں فقہائے کرام کے نزدیک باپ کی ولایت پھر عود کر آئے گی ، یونہی ذخیرہ میں ہے۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب النکاح، جلد1، صفحہ284، مطبوعہ کوئٹہ)

   معتوہہ عورت کے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سنّت  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”تبرعات مثل ہبہ مال وبخشش مہر وغیرہ کی اہلیت ہر گز نہیں، اگر ایسے تصرفات کرے گی محض باطل ہوں گے، اوررضاعت وغیرہ کسی امر میں اس کی شہادت اصلاً قابل قبول نہیں پر اگر اس کے افاقہ کا کوئی وقت معلوم ومعروف نہیں تو یہ احکام حجر تصرفات وابطال تبرعات والغائے شہادت دائمی ہیں کہ جب افاقہ معہود نہیں تو کسی وقت اطمینان نہیں ہوسکتا، ہر وقت محتمل کہ حالت اختلال میں ہو صرف عاقلانہ باتیں کرنی موجب اطمینان نہیں کہ معتوہ بلکہ مجنون بسا اوقات ٹھیک ٹھیک عقل کی باتیں کرتے ہیں، یہاں تک کہ ناواقف سنے تو ہر گز احتمال اختلال نہ کرے۔ ہاں!اگر وقت افاقہ معلوم ہے تو اس وقت اس کاحکم مثل حکم عقلاء ہے۔ اس کے تبرعات بھی نافذ ہوں گے اور شہادت بھی مسموع ہے۔“( فتاویٰ رضویہ، کتاب الحجر،جلد 19، صفحہ615، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:لڑکا معتوہ یا مجنون ہے اور اسی حالت میں بالغ ہوا تو باپ کی ولایت اب بھی بدستور باقی ہے اور اگر بلوغ کے وقت عاقل تھا پھر مجنون یا معتوہ ہوگيا، تو باپ کی ولایت پھر عود کر آئے گی اور کسی کا باپ مجنون ہوگيا ،تو اُس کا بیٹا ولی ہے،اپنے باپ کا نکاح کر سکتا ہے۔(بھارِ شریعت، جلد2، حصہ7، صفحہ45،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ضروری ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:” و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء الزکاۃ لقولہ عز وجل﴿وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ و الایتاء ھو التملیک“ترجمہ: اللہ عز وجل نے مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:(زکوٰۃ دو)اور ایتاء یعنی دینے کا مطلب "مالک کر نا" ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ، جلد2، صفحہ142، مطبوعہ کوئٹہ)

   امامِ اہلِ سنّت  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”زکوٰۃ کا رکن تملیکِ فقیر( یعنی فقیر کو مالک بنانا)ہے۔ جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو ، کیسا ہی کارِ حَسن ہو، جیسے تعمیرِ مسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسانِ علمِ دین، اس سے زکوٰۃ نہیں ادا ہوسکتی۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ269، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

      شرعی فقیر مقروض کی طرف سے اس کا قرض خواہ قبضہ کر لے،تو زکوٰۃ ادا ہوجانے کے متعلق بحر الرائق ، درمختار اور دیگر کتبِ فقہ  میں ہے، واللفظ للدر:’’دین الحي الفقير فيجوز لو بأمره‘‘ترجمہ: زندہ فقیرِ شرعی کی اجازت سے(اگر کسی نے) اس کا دَین ( یعنی قرض ادا کر دیا،) جائز ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:”(دین الحی الفقیرفیجوز لو بامرہ)ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا لنفسہ“ترجمہ:زندہ شرعی فقیر کے دَین کواس کی اجازت سے ادا کرنا، جائز ہے، یعنی زکوۃ کے طور پر جائز ہوجائے گا، اس بنا  پر کہ اس ( زکوٰۃ دینے والے) کی طرف سے مالک بنانا پایا گیا اور قرض خواہ نیابت کے طور پر مقروض کی طرف سے قبضہ کرے گا، پھر قرض خواہ کا قبضہ کرنا، مقروض کا قبضہ کرنا ہی شمار ہو گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ342، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارشریعت میں فرماتے ہیں:”فقیر پردَین(قرض) ہے، اس کے کہنے سے مالِ زکاۃ سے وہ دَین( قرض) ادا کیا گیا،زکوۃ ادا ہوگئی۔“(بھارشریعت، حصہ5،جلد1، صفحہ927، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم